سخاوت کا مکتب خزیمہ کی بیٹی
ہے نام ان کا زینب ، خزیمہ کی بیٹی
کھلا کر غریبوں کو بتلاگئی ہیں
امیروں کا منصب خزیمہ کی بیٹی
کوئی پوچھے گر ، کون ہے ماں ہماری؟
تو کہہ دیں گے ہم سب ”خزیمہ کی بیٹی“
خدا کو ہوئیں تین ہجری میں پیاری
کہ تھیں رحمتِ رب خزیمہ کی بیٹی
ملا نام ان کو ہے ’’ام المساکین‘‘
اسامہ کا مطلب ، خزیمہ کی بیٹی
شاعر:
محمد اسامہ سَرسَری