نت نیا ہنگامۂ محشر بپا مٹی میں ہے
نت نیا ہنگامۂ محشر بپا مٹی میں ہے
دیکھ کتنا ظرف، کتنا حوصلہ مٹی میں ہے
خاک کے پتلوں کو سعیِ غیر حاصل مت سمجھ
اس جہاں کا ہر خزانہ ہی چھپا مٹی میں ہے
مبتلائے عشق کو لاؤ، مسیحائی کریں
لادوا سارے مریضوں کی دوا مٹی میں ہے
خاک زادوں کو کہاں مٹی سے ممکن ہے مفر
ابتدا مٹی سے تھی اور انتہا مٹی میں ہے
ہر دلِ صد پارہ کیوں کھنچتا ہے مٹی کی طرف
آخر ایسی کونسی یا رب! شفا میں ہے
قطرہء اشکِ ندامت کیا ملایا خاک میں
چاند تاروں سے بھی بڑھ کر اب ضیا مٹی میں ہے
ایک دنیا جس کے در پر آکے جھکتی تھی کبھی
دیکھ اس کو، وہ پڑا بے دست و پا مٹی میں ہے
!کیا عجب درویش کی یہ بے نیازی ہے سمیع
آسمانوں تک رسائی ہے، پڑا مٹی میں ہے