یاد نہیں کہ آخری بار گرمی دانے کب نمودار ہوئے تھے، بلکہ شاید کبھی ہوئے ہی نہیں۔ اس سال مگر پچھلا پورا ایک مہینہ اس اذیت سے گزرا کہ گرمی دانوں کے بے شمار جزیرے بحر بدن پر جا بجا نمودار ہوگئے۔ سمندر کنارے آباد ہمارے کراچی میں گرمی، تپش اور حبس ہی اس سال کچھ اتنا زیادہ رہا…!
ایک طرف کراچی کا تیزی سے بدلتا قہر برساتا موسم تو دوسری طرف کراچی میں زیر زمین پانی لگتا ہے پاتال ہی میں جا اترا ہے۔ واٹر بورنگ ڈیڑھ دوسو فٹ سے اب چار سو فٹ تک جا پہنچی ہے۔
یہ بڑی الارمنگ صورتحال ہے، اور صرف کراچی ہی نہیں، پورے ملک ہی کا یہی حال ہے۔
ہماری رائے میں اِن دونوں مسائل کا حل بہت ہی آسان، کم خرچ اور دیرپا ہوسکتا ہے اگر حکومت سنجیدہ ہوجائے۔
(۱) پہلا یہ کہ ہر بستی میں مقامی درختوں کے مصنوعی شہری جنگل فوری طور پر اگائے جائیں!
(۲) دوسرا یہ کہ ہنگامی بنیادوں پر تمام چھوڑے بڑے شہروں میں نشیبی مقامات پر پانی چوس کنویں بنائے جائیں!
٭
(۱) جنگل:
شاید بڑے شہروں کے رہنے والے کہیں کہ ہمارے شہروں میں جنگل کیسے اگ سکتے ہیں توبات یہ ہے کہ اگر دل میں ٹھان لیا جائے تو کچھ مشکل نہیں، ہزارہا راستے نکل آتے ہیں، مثلاً ہم اپنے شہر عروس البلاد کراچی کی بات کریں تو یہاں میں دو بڑی ندیاں ہیں؛ لیاری ندی اور ملیر ندی، جبکہ اورنگی نالے، شیر شاہ نالے اور گجر نالے سمیت قریب تیس چھوٹے بڑے نالے وہ ہیں جن کے ذریعے گندے پانی کی نکاسی بذریعہ لیاری ندی اور ملیر ندی سمندر میں ہوتی ہے۔
ان میں لیاری ندی سب سے بڑی ندی ہے جس پر آج کل لیاری ایکسپریس وے بھی ہے۔ چالیس سے پچاس کلومیٹر طویل اس ندی میں پہلے مرحلے میں دس کلومیٹر طویل ایکسپریس وے کےساتھ ساتھ ندی کے دونوں جانب ایک لاکھ درخت تو بآسانی لگائے ہی جاسکتے ہیں، اس کے بعد دوسرے مرحلے میں باقی ندی پر بھی ایک ڈیڑھ لاکھ درخت لگائے جاسکتے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے بنا بنایا ایک بہترین سسٹم موجود ہے جس پر خرچ بھی نسبتاً بہت معمولی آئے گا۔ ندی میں قدرتی کھاد موجود ہے، ہر وقت نمی موجود ہے۔ یہ درختوں کو تیزی سے بڑھنے میں مدد دے گی۔
کراچی کی آب و ہوا کے لیے نیم کا درخت بہترین سمجھا جاتا ہے، مگر نیم کے علاوہ بھی دیسی درخت ہیں مثلاً: کیکر، برگد، پیپل، کچنار، شیشم، ببول، تمر، سوہانجنا، جامن، کیکر، بیکائن اور کھجور وغیرہ!
اب دیکھ لیجیے کہ اِن پودوں کی قیمت کیا ہے؟
یہ پودے لاکھوں کی تعداد میں تیار کیے جائیں تو بھی خرچ بہت ہی کم ہے، جبکہ بہترین کھاد، پانی، مٹی کا انتظام تو قدرت نے خود کیا ہوا ہے۔ ابتدائی برس ان کی نگہداشت کرنا ہوگی پھر اگلے دو چار برسوں میں یہ دیکھ بھال سے بےنیاز ہو کر مکمل درخت بن جائیں گے۔ گویا زیادہ سے زیادہ ۲۰۳۰ء میں دو لاکھ درختوں کا جنگل تو صرف لیاری ندی کے ساتھ تیار ہوگا! اس کے علاوہ ملیر ندی کے ساتھ بھی جنگل اگایا جاسکتا ہے اور گجر نالے جیسے درجنوں نالوں کے ساتھ بھی۔
ندی نالوں کے علاوہ بھی کراچی کے مخصوص مقامات پر دو دو تین تین ایکڑ پر مصنوعی جنگل اگائے جاسکتے ہیں، جیسے کلفٹن اربن فورسٹ کے نام سے کچھ عرصہ قبل بنایا گیا ایک مصنوعی جنگل واقعی شاندار ہے۔ صرف ڈھائی ایکڑ پر مشتمل اس جنگل میں سات لاکھ پودے لگائے گئے تھے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کراچی اور اس جیسے بڑے شہروں میں اس طرح کے صرف پچیس شہری جنگل اگا لیے جائیں، تو شدید گرمی سے صرف دو برسوں میں چھٹکارا پایا جاسکتا ہے، اسی طرح سمندر کے ساتھ والی پٹی پر مینگروز کے جنگلات میں بھی خاطرخواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔لاکھوں درختوں کے یہ جنگل کراچی کی فضا کو یکسر بدل کر رکھ دیں گے، یہ ایک گیم چینجر آئیڈیا ہے۔
٭
(۲) پانی چوس کنویں:
آج ٹیوب ویلوں سے زمین کا سینہ لاکھوں جگہ سے چھید کر زیر میٹھے پانی کو کھینچا تو جارہا ہے مگر اسے ری چارج کرنے کا کوئی نہیں سوچتا۔جبکہ اس کے لیے ہمیں قدرت کی طرف سے مون سون سسٹم کا تحفہ ملا ہوا ہے۔
مون سون بارشوں میں برسنے والا کروڑوں لیٹر پانی جو سراپا زندگی ہے، وہ صرف ہماری بدانتظامی کی وجہ سے کسی اژدھے کی طرح پھنکارتا ہوش ربا تباہی مچاتا، انفرا اسٹرکچر کو تباہ کرتا ہزاروں قیمتی جانوں کو نگلتا سمندروں کی نذر ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر اس پانی کو اسٹور کیا جا سکے، خصوصاً زیرزمین چلتے قدرتی دریاؤں اور تالابوں میں تو یہی پانی رحمت بن جائے۔
اسی کے لیے پانی چوس کنوئیں بنانا خاص طور پر بڑے شہروں میں بہت ضروری ہیں۔
جناب ظفر اقبال وٹو جو پیشے کے اعتبار سے آبپاشی کے انجینئر ہیں، کہتے ہیں کہ صرف لاہور شہر میں تینتالیس مقامات پر پانی چوس کنویں بنادینے سے مون سون بارشوں کے دو مہینے میں پورے سال کے لیے اہل لاہور کے پانی کا بندوبست ہوسکتا ہے۔
آپ لکھتے ہیں کہ ایک پانی چوس کنواں کم وبیش ساڑھے سات لاکھ روپے میں بن سکتا ہے یعنی دو کنویں پندرہ لاکھ میں۔سو اگر کراچی میں کم ازکم دو سو ایسے کنویں بنادیے جائیں تو وہ سولہ کروڑ روپے میں بن جائیں گے۔ جن کی وجہ سے نہ صرف مون سون بارشوں میں پانی سڑکوں پر کھڑا نہیں رہے گا، لاکھوں انسان بے گھر نہیں ہوں گے بلکہ یہ قیمتی پانی ہمہ گیر تباہی مچا کر سمندر برد ہونے کی بجائے زمین کو ری چارج کرکے سارا سال استعمال کے لیے محفوظ ہوجائے گا۔
٭
آخر میں ایک اہم بات کی یاددہانی کروانا ضروری سمجھتے ہیں۔
وہ یہ کہ طبیب صدیوں سے کہتے آئےہیں، پرہیز علاج سے بہتر ہے…!
یعنی بیمار ہوکر علاج کروانے سے کہیں بہتر بیماری سےبچاؤ ہے۔ سو اس لاپروائی پر بات کرنا بھی بہت ضروری ہے جس کی وجہ سے ہماری بستیاں آج بیمار ہیں اور پانی کے بڑے بڑے قدرتی ذخائر کی نعمت ملنے کے باوجود آج ہماری زمینوں میں میٹھے پانی کی کمی ہے۔
اور یہ ہوا ہے پانی اور درختوں کے بے دردی سے ضیاع کی وجہ سے۔
پانی کا ہر سطح پر اسراف اور لکڑی مافیا کا غیرقانونی طور پر درختوں کو کاٹنا، یہ دونوں جرائم ہیں اور بڑے گناہ بھی۔ انہی گناہوں کی سزا ہمیں آج مل رہی ہے کہ سمندر کنارے آباد کراچی جیسا شہر بھی جس کی سمندری ٹھنڈی ہوائیں مشہور رہی ہیں، اِس سال جون جولائی میں تنور بنا رہا ہے۔
ہمارے ہاں بالعموم اب اسراف کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ خصوصا قدرتی وسائل کے اسراف کو۔ مثلاً وضو جو ایسی عبادت ہے کہ گویا عبادتوں کا دروازہ ہے، اس میں بھی پانی کا اتنا اسراف کیا جاتا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔ جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس حوالے سے واضح فرمان موجود ہے۔
آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے پیارے صحابی کو ہدایت فرمائی تھی کہ بہتی نہر پر بھی ہو تو وضو میں اسراف نہ کرو۔ آج ان موضوعات پر منبر پر بھی بہت کم بات ہوتی ہے۔ مسنون وضو جو دو گلاس پانی میں بھی بآسانی ہوسکتا ہے اس میں ٹونٹی پوری کھول کر اتنا میٹھا پانی نالی میں بہا دیا جاتا ہے کہ آرام سے ایک شخص غسل کرسکے اور یوں نیکی برباد گناہ لازم آجاتا ہے۔
سو بیماری کا علاج کرنے سے قبل ضروری ہے کہ ہم اول اس اسراف سے توبہ کریں جس کی وجہ سے بیماری ہوئی، پھر وضو اور غسل کو سنت کے مطابق کم سے کم پانی میں کیسے کیا جاسکتا ہے، اسے سیکھیں تا کہ دوبارہ بیمار نہ ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دنیا آخرت کے ہر سردوگرم سے بچا کر رکھے، ہر پہلو سے ہمیں سرسبزوشادابی عطا فرمائے اور شدید پیاس میں ٹھنڈے میٹھے پانی سے زیادہ اپنی محبت ہمیں عطا فرما دے، آمین!