سوال:
السلام علیکم استاذ محترم، پوچھنا یہ تھا کہ کیا یہ کلام کفریہ ہے، کسی نے کہا یہ کفریہ کلام ہے براہ کرم جواب عنایت فرمائیں
دل کہہ رہا ہے اِن سے ذرا یہ سوال کر
سیلاب! کیا ملا مجھے گھر سے نکال کر
گھربار چھوڑ کر کے میں سڑکوں پہ آگیا
کچھ تو ترس کھا اور نہ جینا محال کر
محلوں میں رہنے والے زمیں پر بھی جھانک لے
بھوکا تو کوئی سویا نہیں ہے خیال کر
سیلاب! میں نے مانا تو جلوہ دکھا دیا
چل بس ٹھہر جا اور نہ زیادہ وبال کر
سیلاب! لوگ راہوں پہ گھٹ گھٹ کے سانس لے
پھر کہہ رہا ہوں تجھ سے مت ایسا کمال کر
بقلم ارمان کھگڑیاوی
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
کسی شعر کو کفریہ قرار دینے کے لیے دو باتیں ذہن میں رکھیں:
(1) اگر کلام کی مراد میں کئی احتمال ہوں اور ایک بھی ایسا ہو جسے متعین کرلینے پر کفر کا فتوی نہ لگتا ہو تو وہی مراد لینا چاہیے۔
(2) اگر شاعر زندہ ہو اور اپنے کلام کی خود وضاحت کردے تب معنی متعین پر فقہی حکم لگ سکتا ہے۔ اور اگر شاعر زندہ نہ ہو یا اس سے کلام کا متعین معنی معلوم نہ کیا جاسکتا ہو تو اس صورت میں اس کی شخصیت اور زندگی میں غور کرکے اس کے مطابق معانی اخذ کرنے چاہیے مثلا اگر وہ شرک و بدعت سے بچتا ہے تو کلام کے شرکیہ پہلو سے پہلوتہی کی جائے گی اور موحدانہ رنگ میں دیکھا جائے گا۔
ہیش کردہ کلام میں سیلاب بطور استعارہ ہے جس پر فتوی لگانے والوں کو درج بالا تفصیل سامنے رکھنے ہوگی۔
واللہ اعلم