محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

اللہ تعالیٰ نے مجھے آج سے تقریبا ساڑھے چھ سال پہلے اپنی رحمت سے نوازا تھا ، ہم نے “امیمہ” نام رکھا ، میری وہ پہلی بیٹی پانچ مہینوں کے لیے اس دنیا میں آئی تھی ، پہلی بار جب ڈاکٹر سے پتا چلا کہ وہ نہ سن سکے گی ، نہ بول سکے گی تو میں نے رو رو کر اپنی اہلیہ کی اشک شوئی کی تھی ، خیر جو اللہ کو منظور ، اس نے اسے دنیاوی پریشانیوں کا سامنا کرنے سے پہلے ہی واپس بلالیا ، اسے دفناتے ہوئے میں نے اپنے سالے سے کہا تھا: “اس بچی نے مجھے دو اعزاز دیے ہیں ، پیدا ہوکر باپ بنایا اور مر کر جنتی بنادیا۔” ایک عزیز نے اس موقع پر بڑی پیاری دعا دی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا نعم البدل عطا کرے ، اس موقع پر جن کیفیات کے ساتھ میں نے “آمین” کہا تھا ، وہ کیفیات دعاؤں کی قبولیت میں یقینا کافی اثر رکھتی ہیں۔

آج وہ نعم البدل بیٹی چار سال کی ہے ، بہت پیاری ہے ، نام ہی “حبیبہ” ہے ، اس کی مسلسل چہچہاہٹ  میں “امیمہ” کی خاموشیاں کہیں گم ہوکر رہ گئی ہیں۔

حد تو یہ ہے کہ اب “حبیبہ” میری استانی صاحبہ کے فرائض سر انجام دینے لگی ہے ، ایک بار میں نے اس سے کہا کہ “حبیبہ! اپنا تکیہ بچھاؤ” تو یہ کل کی بچی میری اصلاح کرتے ہوئے فرمانے لگی کہ “ابوجی! تکیہ بچھاتے نہیں ہیں ، تکیہ رکھتے ہیں ، چادر بچھاتے ہیں۔”

اس حیرانی کے مزے کئی دن تک لیے تھے ، پھر آج تو اس نے مبہوت ہی کردیا ، جب میں نے اسے کھلونوں سے کھیلتے دیکھ کر کہا: “حبیبہ! چائے پکا رہی ہو؟” تو اس نے ڈمپل سجاتے ہوئے جواب دیا: “ابو جی! چائے پکاتے نہیں ہیں ، چائے بناتے ہیں ، کھانا پکاتے ہیں۔”

تحریر: محمد اسامہ سَرسَری