وہ بھی تو وہیں ہوں گے
یا پھر وہ چناں ہوں گے، یا پھر وہ چنیں ہوں گے
شہکار ہیں خالق کے ، کیا کچھ وہ نہیں ہوں گے
چہ طور، چہ زیبائش ، چہ حور، چہ آرائش
وہ وجہِ دو عالم ہیں ، وہ کتنے حسیں ہوں گے
جو عقل کے دریا ہیں، سب ان کی رعایا ہیں
وہ شاہِ ظریفاں ہیں، خود کتنے ذہیں ہوں گے
انوار کی محفل کا کچھ حال سنا طیبہ!
کیا خوب مکاں ہوگا، چہ خوب مکیں ہوں گے
عیسی کی مسیحائی امت میں چلی آئی
کس درجہ بلندی پر وہ عرش نشیں ہوں گے
ہاں، وصلِ شبِ اسرا کیا خوب حقیقی تھا
حق ان کے قریں ہوگا، وہ حق کے قریں ہوں گے
برزخ کا بھی کھٹکا ہے ، محشر کا بھی دھڑکا ہے
بس ایک تسلی ہے، وہ بھی تو وہیں ہوں گے
صلی اللہ علیہ وسلم
شاعر:
محمد اسامہ سَرسَری