کھیل کھیلا ہے شجر نے ہر نگر ہر گاوں میں
کھیل کھیلا ہے شجر نے ہر نگر ہر گاوں میں
خود حرارت کے مزے اور ہم کو رکھا چھاوں میں
۔
جس شجر پر گھونسلوں کی جا بجا بہتات ہو
سانپ کا بل بھی وہیں دیکھا ہے اس کے پاوں میں
۔
ریگزارِ زندگی میں لازمی ہیں کچھ سراب
کچھ تو ہو شغلِ مسافت وقت کے صحراوں میں
۔
مشترک ہے جب محبت سب صحیفوں میں تو پھر
نفرتیں کیوں جپ رہے ہیں پیشوا مالاوں میں
۔
لیس للانسان الا ما سعی پر غور کر
پھر بتا رکھا ہی کیا ہے ہاتھ کی ریکھاؤں میںِ
۔
یوں ہی کب پتھر کو پیپر ویٹ کا منصب ملا
در بدر رلتا رہا ہےمختلف دریاوں میں
۔
کس طرح مانی تو اپنے گھر میں ٹھہرے گا کہ جب
جی میں سودا دشت کا ہے اور چکر پاوں میں