محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

“کیا” کی دو قسمیں ہیں:
(1) استفہامیہ (2) فعلیہ

(1) استفہامیہ:
جیسے “آپ کا کیا نام ہے؟” ، اس کا وزن فع (2) ہے، کیونکہ اس کی ی وزن میں شمار نہیں ہوتی۔
غالب کا شعر دیکھیں:
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
اس شعر میں “کیا ہے” کو فعلن باندھا گیا ہے، یعنی کیا کو فع باندھا گیا ہے۔
نوٹ: کیا (استفہامیہ) کو فعو باندھنا بھی درست نہیں اور بلا ضرورت شدیدہ اسے 1 باندھنا بھی غلط ہے۔

(2) فعلیہ: جیسے “میں نے کیا۔” ، یہ کرنا سے فعل ماضی مطلق ہے، اس کی نشانی یہ ہے کہ نثر
میں اس سے پہلے ہمیشہ “نے” آتا ہے، اس کا عروضی وزن فعو ہے۔
بہادر شاہ ظفر کا شعر دیکھیے:
تم نے کیا نہ یاد کبھی بھول کر ہمیں
ہم نے تمھاری یاد میں سب کچھ بھلا دیا
اس شعر میں کیا کو فعو باندھا گیا ہے۔
نوٹ: کیا (فعلیہ) کو ہمیشہ فعو ہی باندھا جاتا ہے، اسے فع باندھنا بھی درست نہیں اور بلا ضرورتِ شدیدہ 11 باندھنا بھی غلط ہے۔

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری