کیوں نہ ہوغم اور خوشی سے آشنا میرا وجود
کیوں نہ ہوغم اور خوشی سے آشنا میرا وجود
جانتا ہے عشق کا ہر ذائقہ میرا وجود
ریت کا ہر ایک ذرہ ہجر کی تفسیر ہے
دشت میں پھیلا ہوا ہے جابجا میرا وجود
اے فراتِ عصر تو اس کو بجھا سکتا نہیں
ہے مسلسل پیاس کا اک سلسلہ میرا وجود
آبلہ پائی پہ گریہ زار ، راہ عشق ہے
دیکھ مجھ کو ہو گیا ہے آبلہ میرا وجود
داستاں اتنی سی ہے بس ہستی ِ ناپید کی
خاک سے تھا،خاک سے پھر جا ملا میرا وجود