ہم انھیں یاد آگئے آخر
ہم انھیں یاد آگئے آخر
اَبْر حیرت کے چھا گئے آخر
کِھل اُٹھے پھول میری تربت کے
اللہ اللہ! وہ آگئے آخر
سَر جھکائے کھڑے رہے خاموش
اور آنسو بہا گئے آخر
پڑھ کے تختی “کبھی تو آئیں گے “
آہ! وہ لڑکھڑا گئے آخر
فاتحہ کی غرض سے آئے تھے
گلے شکوے سنا گئے آخر
بے قراری میں آج وہ روشنؔ
حوصلہ بھی گنوا گئے آخر