محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

کھیل کھیلا ہے شجر نے ہر نگر ہر گاوں میں


کھیل کھیلا ہے شجر نے ہر نگر ہر گاوں میں
خود حرارت کے مزے اور ہم کو رکھا چھاوں میں

۔

جس شجر پر گھونسلوں کی جا بجا بہتات ہو
سانپ کا بل بھی وہیں دیکھا ہے اس کے پاوں میں

۔

ریگزارِ زندگی میں لازمی ہیں کچھ سراب
کچھ تو ہو شغلِ مسافت وقت کے صحراوں میں

۔

مشترک ہے جب محبت سب صحیفوں میں تو پھر
نفرتیں کیوں جپ رہے ہیں پیشوا مالاوں میں

۔

لیس للانسان الا ما سعی پر غور کر
پھر بتا رکھا ہی کیا ہے ہاتھ کی ریکھاؤں میںِ

۔

یوں ہی کب پتھر کو پیپر ویٹ کا منصب ملا
در بدر رلتا رہا ہےمختلف دریاوں میں

۔

کس طرح مانی تو اپنے گھر میں ٹھہرے گا کہ جب
جی میں سودا دشت کا ہے اور چکر پاوں میں