محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

خدا کے نام پر جو مر نہیں سکتا

خدا کے نام پر جو مر نہیں سکتا
وہ کچھ بھی زندگی میں کر نہیں سکتا

جو جاں پر کھیل کر آیا ہے منزل تک
کسی طوفاں سے اب وہ ڈر نہیں سکتا

نہ ہو جس دل میں احساساتِ انسانی
کسی کا بھی بسا وہ گھر نہیں سکتا

نہیں جس سے کوئی بھی واسطہ میرا
مرے گھر میں وہ پاؤں دھر نہیں سکتا

بہت ہے ذمےداری مجھ پہ اے ہمدم!
یہ رانجھا قیس بن کر مر نہیں سکتا

وفاداری مری رگ رگ میں شامل ہے
میں غداری کسی سے کر نہیں سکتا

بہت سے دوست کھوئے ہیں بس اب عالم!
ترے بارے میں غفلت کر نہیں سکتا