سوال:
بُوئے گُل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزمِ تو برخاست، پریشاں برخاست
(مرزا عبدالقادر بیدلؔ اکبرآبادی)
بیدلؔ کے اس شعر کے ساتھ مرزا غالب نے عجب ہی قیامت ڈھائی ہے۔
بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا
(مرزا اسد الله خاں غالب)
کیا پہلا شعر بیدل کا ہی ہے یا نہیں ؟
اگر ہے تو کیا یہ سرقہ نہیں ہوگا؟
اس بارے میں معلومات فراہم فرمائیں۔
جواب:
بیدل کو بڑے شعراء نے خوب نقل کیا ہے، کبھی کچھ تبدیلی کے ساتھ اور کبھی بغیر تبدیلی کے، چونکہ غالب اقرار کر رہے ہیں کہ:
طرزِ بیدل میں ریختہ لکھنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
اس لیے اسے سرقہ کے بجائے ترجمہ کہیں گے۔ جیسے آج کل لوگ سابقہ شعراء کی روح سے معذرت کرتے ہوئے ان کے کسی بھی شعر پر ہاتھ صاف کر جاتے ہیں، میرے خیال میں یہ سرقہ نہیں، یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی مالدار اپنے مالدار دوست کے ہاں مدعو ہو اور وہاں سے ایک آدھ ٹشو لے کر جیب میں ڈال لے، بعض لوگ تو سیدھا منہ پر کہہ دیتے ہیں: یار یہ چیز مجھے بہت پسند آرہی ہے، تم اپنے لیے دوسری لے لینا۔ 🙂
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری