محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

سایہ ہی میسر ہے نہ کچھ ہم کو ثمر ہی
ہے باغ ہی اپنا نہ کوئی ایک شجر ہی
آداب تو سیکھے ہیں زمانے میں ادب کے
آیا نہ مگر دنیا کمانے کا ہنرہی
تم چاند کو چھو لو یا فلک چوم کے آؤ
آخر کو تو ہونا ہے تمہیں خاک بسر ہی
اس سا کوئی ناکام نہیں سارے جہاں میں
ہے عشق جسے راس  نہ کچھ کارِ دِگر ہی
دل چاہتا ہے لوٹ چلیں اپنے نگر کو
قسمت نہیں دیتی ہے مگر اذنِ سفر ہی
مل جائے حرارت سی ارادوں کو ہمارے
ہو جائے ذرا نفس میں کچھ رقصِ شرر ہی
مشغول وہ کچھ ایسے ہوا کارِ جنوں میں
دنیا کی رہی فکر نہ کچھ اپنی خبر ہی
لا حاصل و حاصل نہیں جب بس میں ہمارے
تو کیوں نہ بسا لیں کوئی خوِابوں کا نگر ہی
گر نالۂِ شب میں نہیں تاثیر تو عاکف
اے کاش  ثمر ور ہو مری آہِ سحر ہی

شاعر:
عاکف غنی