محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

بجا کہ ہیں سوال و حرف و جذب و شوق مضمحل

بجا کہ ہیں سوال و حرف و جذب و شوق مضمحل
عطا کے التفات میں مگر نہیں کوئی مخل

سکوتِ تام ہی سے ہو تو ہو کوئی بیانِ دل
کہ بابِ نعت میں ہیں سارے حرف و صوت منفصل

کرم خصال ! اب کسی طلوعِ خواب  کی نوید !
خرامِ ناز کے ہیں منتظر کبھی سے چشم و دل

وہی تو ایک ذات ہے جو ہے پناہِ دو جہاں
وہی تو ایک اسم ہے جو ہے ضمانِ حرز و ظل

یہ شہرِ عفوِ عام ہے مگر مَیں اِک خطا نژاد
سو مژدہ یاب ہو کے بھی ہُوں کس قدر خجل خجل

اُسی شفیعِ مذنبیں کے لطف پر ہے منحصر
میانِ عرصۂ خطر عمل کا دفترِ مذل

چلا تو مَیں بھی ہُوں دیارِ لطفِ خاص کو، مگر
بہ رختِ جذبِ مضمحل، بہ زادِ شوقِ منفعل

ہیں زاویے عطا کے سب تری عطا سے بہرہ مند
ہیں سلسلے کرم کے سب ترے کرم پہ مشتمل

چمک رہا تھا اُس گھڑی بھی وہ ضیا نواز نجم
حیات کس گھڑی تھی محض اِک خمیرِ  آب و گِل

خدا کا شکر ہے زوالِ موسمِ  فشار میں
خیالِ نعت سے فضائے زندگی ہے معتدل