ہائے کیسے جل رہا تھا ہجر میں جلتا وجود
زندگی کی سرحدوں پہ ڈھل گیا ڈھلتا وجود
یہ بھی ہے اضداد کے پیمان میں جکڑا بدن
اور وہ تکلیف دیتے شبد کا گلتا وجود
منزلوں سے دور ہوتے شخص کے بھٹکے قدم
اور اُس کے نقش پہ دوگام یہ چلتا وجود
آگ پر رکھی تغاری میں پڑی مٹی کا لمس
اور دانے کی طرح ہیجان میں ڈھلتا وجود
نیلگوں آنکھوں سے بہہ کر آخری ہچکی تلک
بےبسی کا رزق ٹھہرا اشک میں پلتا وجود
عشق بھی اک معجزہ ہے اور محبت پُل صراط
دیکھ پھر محوِ تماشا دھار پر چلتا وجود
شاعر:
محمد حفیظ عازم