اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ آپ کا مسلک کیا ہے؟
دیکھا جائے تو اس وقت اہلِ سنت کے بڑے مسالک تین ہیں: اہل حدیث حضرات، بریلوی حضرات اور دیوبندی حضرات۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان میں سے کوئی بھی مسلک نہ مکمل طور پر درست ہے، نہ مکمل طور پر غلط، بلکہ اس کا فیصلہ ہمیں ان کے مابین اختلافی مسائل کو سامنے رکھ کر کرنا ہوگا۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ دین کے لاکھوں مسائل میں سے اختلافی مسائل کی تعداد سو سے بھی کم ہے، پھر ان اختلافی مسائل میں سے بھی بہت سے لفظی نزاع ہیں، کچھ افضل غیر افضل کے مسائل ہیں، جبکہ سنجیدہ اور حساس مسائل میں بھی ہر مسلک قرآن و سنت ہی کی طرف مراجعت کرتا ہے اور اپنے اپنے دلائل رکھتا ہے۔
پھر ہر مسلک میں متشدد لوگ بھی پائے جاتے ہیں اور معتدل طبیعت لوگ بھی۔
اس لیے میرا ماننا یہ ہے کہ بجائے مسلک کو درست یا غلط قرار دینے کے ہمیں مسئلے اور اس کے دلائل پر غور کرنا چاہیے۔
پھر یہ چیز بھی نظر انداز نہیں کرنی چاہیے کہ یہ اختلافات علمی نوعیت کے ہیں، سو اس میں اگر کوئی ہمارے نزدیک غلط ہے تب بھی ہم اسے اہل حق ہی سمجھیں گے کیونکہ علمی اختلافات اہل حق کے درمیان میں بھی ممکن ہیں۔
تو سوال یہ ہے کہ پھر غلط کون ہے؟ غلط وہ لوگ ہیں جو دوسرے مسالک کے بارے میں حد درجے متشدد واقع ہوئے ہیں، خواہ وہ ان تین میں سے کسی بھی مسلک سے ہوں۔
اس لحاظ سے میرا مسلک اہل اعتدال کا ہے، میں دیوبندی ، اہل حدیث اور بریلوی حضرات میں سے ان تمام کو اپنا ہم مسلک سمجھتا ہوں جو دوسرے مسالک کے بارے میں متشددانہ سوچ نہیں رکھتے، انھیں کافر اور مشرک قرار نہیں دیتے، ان کی رائے کا احترام کرتے ہیں، اپنے دلائل کو سنجیدہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ کیا آپ میری اس سوچ سے اتفاق کرکے میرے ہم مسلک بننا پسند کریں گے؟ آپ خواہ دیوبندی ہیں، بریلوی ہیں یا اہلِ حدیث، میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ خود کو متشددانہ سوچ سے بچائیں، دوسروں کا احترام کریں، ماضی کے ناخوشگوار واقعات کو نظر انداز کریں، یاد رکھیں! فرقہ واریت کا خاتمہ نہ ان مسالک کو ختم کرکے ممکن ہے نہ ان سب کو غلط قرار دے کر، بلکہ دوسروں کی رائے کا احترام سیکھ کر ہم اعتدال کو جتنا فروغ دیں گے فرقہ واریت کے مضر اثرات سے اتنا زیادہ محفوظ رہیں گے۔
اگر پھر بھی مزید تسلی کے لیے آپ میرا مسلک جاننا چاہتے ہیں تو میں دیوبند مسلک سے وابستہ لوگوں میں پیدا ہوا ہوں اور انھیں کے درمیان درس نظامی کیا ہے، اب اگر آپ اہل حدیث یا بریلوی مسلک کے متشددین میں سے ہیں تو یقینا میں آپ کے نزدیک ایک گمراہ انسان ہوں اور اگر آپ مسلک اعتدال اختیار کر چکے ہیں تو میرا اور آپ کا بس چند مسائل میں اختلاف ہے جن میں سے کچھ لفظی نزاع ہیں، کچھ افضل غیر افضل کے مسائل ہیں اور جو بہت سنجیدہ نوعیت کے ہیں ان سے متعلق بھی میرے اور آپ کے مسلک والوں نے کئی کئی مدلل کتابیں لکھ رکھی ہیں تو کیوں نہ ہم مل جل کر ان دلائل سے راہ حق کی تلاش جاری رکھتے ہوئے فی الحال باہم شیر و شکر ہوکر صحابۂ کرام کے نقش قدم پر چلتے رہیں اور ایک دوسرے کے خلاف لکھنے اور سوچنے میں توانائیاں ضائع کرنے کے بجائے اپنی اپنی غلطیاں درست کرتے رہیں۔ 🙂
خیر اندیش:
محمد اسامہ سَرسَری