محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

پھر پاس نہ دل تھا نہ جگر،  کچھ بھی نہیں تھا

پھر پاس نہ دل تھا نہ جگر،  کچھ بھی نہیں تھا
اِس عشق کے سودے میں ضرر کچھ بھی نہیں تھا
کچھ سوچ کے تنہا ہی  نکل آئے تھے  گھر سے
منزل نہ کوئی زادِ  سفر ، کچھ بھی نہیں تھا
ہر سمت ملے دھوپ میں کُمھلائے سے چہرے
میں ایک اکیلا سا شجر ، کچھ بھی نہیں تھا
دنیا کی  بہرحال عنایات رہی تھیں
ورنہ تو مرے پاس ہُنر کچھ بھی نہیں تھا
جس عشق میں یہ عمر بھی محصول رہی تھی
اس سے   ہمیں  حاصل تو  مگر  کچھ بھی نہیں تھا
دنیا کی حقیقت کو سمجھنے کے سفر میں
پہنچے ادھر آخر میں، جدھر کچھ بھی نہیں تھا
جب  مل نہ سکا وہ تو میں دنیا کا کروں  کیا
سب کچھ تھا مرے پاس مگر کچھ بھی نہیں تھا
ارشد کبھی بدلا نہ مقدر کا ستارہ
لگتا ہے  دعاؤں میں اثر کچھ بھی نہیں تھا

شاعر: