پندار کا نشہ یہ اتر کیوں نہیں جاتا
پِندار کا نشہ یہ اُتر کیوں نہیں جاتا
جب کچھ نہیں باقی تو ہُنر کیوں نہیں جاتا
کیا تم سے کہیں کیوں ہم اکیلے ہیں چمن میں
ہجرت پہ پرندوں کی شجر کیوں نہیں جاتا
تریاقِ مُحبت بھی اگر وقت ہے یارو
اس زہر کا پھر دل سے اثر کیوں نہیں جاتا
اے دل تجھے ہر صُبح دھڑکنے کی ہے جلدی
ایسا ہے تو اک رات ٹھہر کیوں نہیں جاتا
مُٹھی ہی کے جتنا ہے ترا وقت اب ارشد
سِمٹے ہوئے لوگوں میں بِکھر کیوں نہیں جاتا
شاعر: