عروجِ عشق
اثر دیکھے کوئی عاشق مری شمع کے جلنے کا
نہیں شمع میں بھی بارد،نہیں محفل میں خاشاکی
عروجِ عشق باقی ہے مری محفل کی رونق میں
میں سودائی،تو ہرجائی،تو افلاکی،میں ہوں خاکی
حرارت لی محبت سے ، نصیحت لی حکایت سے
میں خاکی ہوں تو لیلیٰ کی محبت میں بنا پاکی
منافق بھی بری دوزخ سے اب تو ہو نہیں سکتا
صدا سے گر اٹھاؤ تم،بنانا دل کو افلاکی
نگاہوں میں تجسّس ہے،اداؤں میں نزاکت ہے
مرے مسلم مبارک ہو طبیعت کی یہ ادراکی
کہ تہذیبِ فرنگی سے مسلماں ہیں اسیری میں
“چه گرمی در تو اندر از زہی محفل به لولاکی”
شاعر: