لہجہ ہے تلخ جس کا، جو آتش مزاج ہے
لہجہ ہے تلخ جس کا، جو آتش مزاج ہے
وہ یارِ تند خو مرے پہلو میں آج ہے
ہے اک فریب خوبئِ عالم مرے لئے
نظروں میں رنگ و نور کا وہ امتزاج ہے
اٹکی ہے جان لب پہ مرے چارہ گر بتا
جز مرگ دردِ دل کا کہیں کچھ علاج ہے
ہمدرد بن کے ساتھ بھی راہِ جنوں میں تھا
دشمن بھی میری جان کا میرا سماج ہے
کل تک دروسِ شوق اسی نے مجھے دیئے
مجھ خانماں خراب سے اب جس کو لاج ہے
تکمیلِ داستان کو حاضر ہے میرا خوں
اک حادثے کی اس کو اگر احتیاج ہے
زرگر نہ تڑپے نوکِ سناں پر بریدہ سر
چشمِ فلک بتا یہ کہاں کا رواج ہے
شاعر: