وہ شخص میرے پاس بڑی دیر تک رہا
وہ شخص میرے پاس بڑی دیر تک رہا
سو میں بھی بد حواس بڑی دیر تک رہا
وہ بے رُخی کے ساتھ ہی سنتا رہا مجھے
میں محوِ التماس بڑی دیر تک رہا
بِکتے تھے واں لباس ہزاروں کے دام میں
لے کر میں سو پچاس بڑی دیر تک رہا
میں بھی غنی تھا پہلے تو لوگوں کا اِک ہجوم
میرے بھی آس پاس بڑی دیر تک رہا
آئی نہ لاش ہاتھ مگر خار زار میں
الجھا ہوا لباس بڑی دیر تک رہا
صحنِ چمن تھا، جام تھا، برکھا تھی، تم نہ تھے
منظر اُداس اُداس بڑی دیر تک رہا
صادقؔ وہ ہونگے آ کے کسی روز ملتفت
در پر لیے یہ آس بڑی دیر تک رہا