محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

دوری رہی، وصال کی حد تک نہیں گیا

دوری رہی، وصال کی حد تک نہیں گیا
یہ زخم اندمال کی حد تک نہیں گیا
ہم نے اٹھائے ہاتھ دعا کی فقط دعا
دستِ طلب سوال کی حد تک نہیں گیا
ہے گردشِ مدام سے وحشت کشید کی
دل جنبشِ مآل کی حد تک نہیں گیا
رقصاں ہے میرے گرد کوئی عشقِ نارسا
پاؤں ابھی دھمال کی حد تک نہیں گیا
کچھ آستیں میں رہتے ہووں کا لحاظ تھا
سازِ ہنر کمال کی حد تک نہیں گیا۔
منظوم کر رہا تھا سہیل اس کے خدوخال
اک بار بھی مثال کی حد تک نہیں گیا