راہِ الفت میں نہ احساسِ زیاں رہتا ہے
راہِ الفت میں نہ احساسِ زیاں رہتا ہے
جان جاتی ہے مگر ہوش کہاں رہتا ہے
اب کسی چیز کا غم ہے نہ گلہ ہے کوئی
اب فقط کوچۂ جاناں کا گماں رہتا ہے
باغ الفت کے مقدر میں بہاریں ہی نہیں
موسمِ گل میں خزاؤں کا سماں رہتا ہے
یہ زمانے کے مصائب تو گوارا ہیں مگر
آپ کا ہجر ہی اس دل پہ گراں رہتا ہے
لفظ مجبور ہیں، خاموش زباں ہے میری
قصۂ درد نگاہوں سے عیاں رہتا ہے
جب سے لبریز ہوا جامِ محبت سیفیؔ !
اک غمِ یار سے ہی دل کو اماں رہتا ہے