یہ ختم نبوت کی محفل آباد ہے آج بھی ویسی ہی
جو قوم بھی اس کی منکر ہے، برباد ہے آج بھی ویسی ہی
کہہ دیجیے ہر اک آندھی سے، آنا ہے تو آکر دیکھ لو تم
ٹوٹی ہیں اگرچہ کچھ شاخیں، بنیاد ہے آج بھی ویسی ہی
اسلام کے پیارے فرزندو! بنیادی عقائد مت چھیڑو
محمود کی باتیں یاد رکھو، اولاد ہے آج بھی ویسی ہی
صد شکر! وہ ایکا پھر سے ہوا، صدیوں سے جو امت میں تھا
جو نصف صدی سے پہلے تھی، امداد ہے آج بھی ویسی ہے
باہم ہیں اگرچہ ہم برہم، یکجان ہیں اس عنوان پہ ہم
افواج اسامہ کی ہم کو، وہ یاد ہے آج بھی ویسی ہی
فرقوں میں بھی کٹ کٹ کر ہم، قوموں میں بھی بٹ بٹ کر ہم
آواز پہ ختمِ نبوت کی تعداد ہے آج بھی ویسی ہی
جنت میں بھی یکجا کردینا، اے ربِّ محمد! ہم سب کو
ہم پر بھی مظالم جاری ہیں، روداد ہے آج بھی ویسی ہی
محمد اسامہ سَرسَری