دل تو کہتا ہے کہ حالات پہ کچھ بات کروں
آشکار اپنے سُلگتے ہوئے جذبات کروں
دل تو کہتا ہے کہ حالات پہ کچھ بات کروں
چپ رہوں گا تو یہ ظالم کی مدد ہی ہوگی
خامشی بھی کسی کافر کی رسد ہی ہوگی
دل میں بھی آگ ہے ایسی کہ قلم جل جائے
گر کسی شعر کے قالب میں ستم ڈھل جائے
پر یہ آواز تو مظلوم ہی سن پائیں گے
اُنکے بُجھتے ہوئے دل اور بھی بُجھ جائیں گے
رب ہی جانے ہے کہ کیسے میں یہ دن رات کروں
دل تو کہتا ہے کہ حالات پہ کچھ بات کروں
بات بھی اُن سے کروں کیسے جو سُنتے ہی نہ ہوں
جو خُدا تک کو کسی گنتی میں گنتے بھی نہ ہوں
جن کی آنکھوں میں حیا کا بھی کوئی نام نہ ہو
زیست میں بھی کہیں غیرت کا کوئی کام نہ ہو
وہ جو فرعون ہوں، شداد ہوں، چنگیز بھی ہوں
جن کی نسلیں ہی اسی طرز کی خوں ریز بھی ہوں
یہ جو طاغوت کے ہمراز تھے دلدار بھی تھے
یہ یزیدی رہے، کوفی ہوئے، غدار بھی تھے
کچھ نشانی تو ملے، پیش جو آیات کروں
دل تو کہتا ہے کہ حالات پہ کچھ بات کروں
یہ مگر طے ہے مری جان چلی جا ئے گی
جلد یا دیر سے مرنے کی خبر آئے گی
اپنے مرنے کی تو مجھ کو کوئی پروا بھی نہیں
ہاں مگر پیاروں کو کچھ ہو یہ گوارا بھی نہیں
سوچتا ہوں میں، کسی سچ کو بتانے کے لیے
کون تیار ہے قیمت یہ چکا نے کے لیے ؟
بس حسین ابنِ علی ہی کی مثالیں ہیں یہاں
اس قدر حوصلہ کس میں کہ لُٹادے یوں جہاں
میں گنہ گار تو بس رو کے مناجات کروں
دل تو کہتا ہے کہ حالات پہ کچھ بات کروں