محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

سوال:
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا
اقبال نے اس شعر میں “بچوں” کو فعو کیوں باندھا ہے جبکہ “بچوں” کا درست عروضی وزن فعلن ہے ، کیا ہم اسے اقبال کی صریح غلطی شمار کریں یا اقبال کی عقیدت میں یوں کہیں کہ چونکہ اقبال نے “بچوں” کو فعو باندھا ہے لہذا یہ بھی درست ہے یا پہلے درست تھا اور اب متروک ہے۔

جواب:
مقولہ مشہور ہے کہ لوگوں کے ساتھ ان کے مقام کے مطابق رویہ اختیار کرنا چاہیے ، اس لیے میں جب کسی نوآموز کو دیکھوں گا کہ وہ “بچوں” کو فعو باندھ رہا ہے تو اس سے یہی کہوں گا کہ “بچوں” کا عروضی وزن فعلن ہے۔
لیکن جب اقبال جیسا عظیم شاعر کوئی لفظ برت لے تو وہاں یہ سوچنا ہی عجیب لگتا ہے کہ اسے “بچوں” کا اصل وزن نہیں معلوم ہوگا چہ جائیکہ بچہ فارسی الاصل ہے اور اقبال کی فارسی شاعری کے بعد مبصرین نے تسلیم کیا ہے کہ اب تک صدیوں سے فارسی کے دو اسلوب مروج تھے ، مگر اقبال کی فارسی شاعری دیکھنے کے بعد کہنا اور ماننا پڑے گا کہ فارسی شاعری کے اب تین اسلوب ہیں۔
جو اقبال اردو نظم کہتے کہتے پورا کا پورا مصرع فارسی میں کہہ دیا کرتے تھے ان کے بارے میں یہ سوچنا بچگانہ حرکت ہے کہ انھیں “بچوں” کا وزن ہی نہیں پتا ہوگا ، بلکہ دراصل ہم بچوں کو اقبال کے قد اور وزن کا ٹھیک سے اندازہ نہیں۔
اب آتے ہیں “بچوں” کی لفظی و عروضی تحقیق کی طرف ، دیکھیں فارسی میں لفظ بچہ چ کے شد کے ساتھ بھی مستعمل تھا اور بلا تشدید بھی ، وجہ یہ ہے کہ فارسی میں تخفیف بکثرت پائی جاتی ہے تو بچّہ کو بھی بچَہ کیا جاسکتا ہے خصوصا مرکبات میں ، تو اقبال نے فارسی کے بچہ پر قیاس کرکے بچہ کی اردو جمع بچوں کو بھی بلا شد باندھ دیا ، جسے یہ تحقیق معلوم ہوگی وہ اسے اقبال کی فاش غلطی کے بجائے اقبال کا شعری تصرف قرار دے گا ، بالخصوص جبکہ ضرورتِ شعری کے تحت اساتذہ شعراء کے ہاں لفظوں کے اصل تلفظ کے ساتھ ہاتھا پائی کا وجود ایک معمول کی چیز ہے۔ 🙂

طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری