علمِ بیان کی رو سے یہ پانچوں الگ الگ ہیں۔
ان کا فرق سمجھنے کے لیے سب سے پہلے لفظ کے حقیقی معنی اور مجازی معنی کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
مثلا کسی نے کہا:
“میں نے آٹا کھایا”
اگر یہ جملہ کہنے والے نے آٹا ہی کھایا ہے تو اس جملے میں آٹا اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے اور اگر اس نے روٹی کھائی ہے تو اس جملے میں آٹا مجازی معنی میں استعمال ہوا ہے۔
اب اگر کسی کو کسی کے مشابہ قرار دیا جائے اور لفظ اپنے حقیقی معنی میں ہی ہو تو یہ تشبیہ ہے جیسے “زید شیر کی طرح ہے” اس مثال میں زید اور شیر دونوں اپنے حقیقی معنی میں ہیں۔
اور اگر لفظ بول کر مجازی معنی مراد لیا جائے اور اس لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق ہو تو یہ استعارہ ہے جیسے “میرے پاس شیر آیا” اس میں شیر سے مراد اگر زید ہو تو یہ استعارہ ہے کیونکہ زید اور شیر میں تشبیہ کا تعلق ہے۔
اور اگر لفظ بول کر مجازی معنی مراد لیا جائے اور اس لفظ کے حقیقی اور مجازی معنی میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو تو یہ مجازِ مُرسَل ہے جیسے “میں نے زید کو پڑھا” اس میں زید سے مراد زید کی کتاب ہے۔
اور اگر لفظ بول کر مجازی معنی مراد لیا جائے لیکن حقیقی معنی کا بھی احتمال ہو تو یہ کنایہ ہے جیسے “میں نے زید کو دیکھا” اس میں زید سے مراد زید کے حالات ہیں مگر خود زید بھی مراد ہوسکتا ہے۔
اور اگر لفظ بول کر ایسا معنی مراد لیا جائے جس میں حقیقی اور مجازی دونوں شامل ہوجائیں تو یہ علامت ہے جیسے “شیر سامنے سے حملہ کرتا ہے” اس مثال میں شیر سے بہادر مراد ہے خواہ وہ شیر ہو یا کوئی اور۔
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری