سوال:
حرف روی کسے کہتے ہیں؟
جواب:
آپ نے غور کیا ہوگا کہ قوافی کے آخر میں کم از کم ایک حرف ایسا ضرور ہوتا ہے جو سب قافیوں میں پایا جاتا ہے ، جیسے آر ، بار ، پار ، تار ، جار ، چار ، خار ، دار ، ان سب کے آخر میں “ر” ہے۔
اسی آخری حرف کو حرفِ روی کہتے ہیں۔
یعنی اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ حرفِ روی کیا ہوتا ہے؟ تو آپ جواب میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ قوافی کے آخری اصلی حرف کو کہتے ہیں۔
آخری تو سمجھ میں آتا ہے ، اصلی کا مطلب یہ ہے کہ اگر اس حرف کو گرادیں تو لفظ اردو زبان کے لحاظ سے یا تو بے معنی ہوکر رہ جائے یا پھر اس کے معنی یکسر بدل جائیں۔
جیسے: قابل کا آخری حرف ل ہے ، آخری اصلی حرف بھی ل ہی ہے کیونکہ ل کو گرادیں تو “قاب” بچے گا جس کا مطلب قابل کے مطلب سے یکسر مختلف ہے ، نیز جیسے شاگرد کا آخری اصلی حرف د ہے ، آخری تو اس لیے کہ سب سے آخر میں ہے اور آخری اصلی اس لیے کہ اگر اسے گرادیں تو “شاگر” بچے گا جو کہ اردو کے لحاظ سے ایک مہمل لفظ ہے۔
مزید مثالیں:
لفظ قاضی کا آخری اصلی حرف ی ہے کیونکہ اسے گرانے سے قاض بچ رہا ہے جو کہ بے معنی ہے۔
لفظ کافی کا بھی آخری اصلی حرف ی ہے کیونکہ اسے گرانے سے کاف بچ رہا ہے جو کہ بالکل الگ لفظ ہے۔
لفظ سردی کا آخری اصلی حرف ی نہیں بلکہ د ہے کیونکہ ی کو گرانے سے سرد بچ رہا ہے جو کہ با معنی بھی ہے اور بالکل مختلف بھی نہیں ، بلکہ سرد کے آخر میں ی کے اضافے سے سردی بنایا گیا ہے ، البتہ اگر سرد سے د کو گرادیں تو سر بچے گا جو کہ یکسر مختلف لفظ ہے ، معلوم ہوا کہ سرد اور سردی دونوں کا آخری اصلی حرف د ہے۔