منظوم عیوبِ سخن مع امثلہ:
اس نظم کے ہر شعر میں بندے نے جس عیب کی طرف اشارہ کیا ہے وہ عیب بھی اس شعر میں رکھا ہے۔
مثلا
شعر کے الفاظ میں تعقید بھی معیوب ہے
“عمدہ” لفظوں کی نشست انسان کو مرغوب ہے
اس شعر میں تعقید لفظی کا عیب بیان کیا ہے اور خود شعر کے اندر لفظ “عمدہ” کو قصدا ایسی نشست دی گئی ہے جس سے تعقید لفظی پیدا ہورہی ہے ، کہنا تھا کہ لفظوں کی عمدہ نشست انسان کو مرغوب ہے ، مگر عمدہ کو “نشست” کے بجائے “لفظوں” سے پہلے رکھنے سے قاری کا ذہن اس طرف بھٹک سکتا ہے کہ نشست جیسی بھی ہو ، الفاظ عمدہ ہونے چاہییں۔ 🙂
اب نظم ملاحظہ فرمائیے:
فکر ہو اعلی سے اعلی اور مہارت فن میں ہو
نامناسب ہے کہ ساری فکر و طاقت فن میں ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فن اگر مفقود ہے تو ہیچ ہیں فکر و خیال
اور بے فکر و تخیل فن کو ہوتا ہے زوال
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
پاک از ہر عیب ہوسکتی نہیں انساں کی بات
بات سنت کی الگ ہے ، اور ہے قرآں کی بات
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہاں ، مگر وہ عیب جو لوگوں میں ہیں مشہور و عام
امثلہ کے ساتھ لکھ دیتا ہوں میں ان سب کے نام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دھیان میں رکھنا ہمیشہ “تم” عیوبِ قافیہ
جانتے ہیں لوگ بے حد “کم” عیوبِ قافیہ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اکثر آتا ہے نظر اشعار میں ضعفِ ردیف
ہے یہ شامل اقبح التکرار میں “ضعفِ ردیف”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دیکھنا قاموس ، مت رکھنا فقط خوش فہمیاں
ہر “لفَظ” کا کیا “وزَن” ہے؟ دیکھتے رہنا میاں!
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شعر کے الفاظ میں تعقید بھی معیوب ہے
“عمدہ” لفظوں کی نشست انسان کو مرغوب ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
معنوی تعقید سے قاری الجھ جائیں گے سب
“جو نہ کچھ سمجھیں گے ، کچھ کا کچھ سمجھ جائیں گے سب”
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
گرمیوں میں کمبلوں سے اور لحافوں سے بچو
حشو و “زائد” جیسے “بھرتی” کے “اضافوں” سے بچو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
“آپ” مت لگنا کبھی عیبِ شترگربہ کے ہاتھ
“تم” نہیں رکھنا کبھی بے جوڑ اشیاء ایک ساتھ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بے تحاشا حرفِ علت کو گرانا عیب ہے
“بتیسی” کو “دکھلا” کر بس “ہنستے” جانا عیب ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صرفی ، نحوی غلطیوں سے شعر کوسوں دور ہو
بات “ایسا” ہو کہ پڑھنے والا “ہر” مسرور ہو
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
حق ادا کرنا ہمیشہ معنوی ابلاغ کا
باغباں ہی جانتا ہے حال “اپنے” داغ کا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
صحتِ الفاظ سے آگے “جمالیّات” ہے
شعر ہو جتنا حسیں اتنی مزے کی بات ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یاد رکھنا وزن سے بنتا ہے بس موزوں کلام
شعر کا یارو! ہے اس سے اور بھی آگے مقام
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شعر بنتے بنتے بنتا ہے بناتے رہنے سے
اور بنتا ہے کوئی شاعر سدا غم سہنے سے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اک خیال آیا ، اسے موزوں بھی ہم نے کر دیا
شعر اس کا نام بھی اپنی طرف سے دھر دیا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اب اسے خونِ جگر سے سینچنا ہے رات دن
جہد کی بانھوں میں اس کو بھینچنا ہے رات دن
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فکر و فن ، حسن و ریاضت کے عناصر لائیے
نظم گو ہرایک ہے ، ایک آدھ شاعر لائیے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مبتدی احباب سے ہے التماسِ سَرؔسَری
آتے آتے آہی جائے گی ہمیں بھی شاعری
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
شاعر:
محمد اسامہ سَرسَری