لفظ ”اللہ“ کا عروضی وزن:
سوال:
لفظ ”اللہ“ کو فعلن باندھنا چاہیے یا مفعول؟
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جواب:
لفظ ”اللہ“ اگر ایک بار ہو تو اسے مفعول باندھنا بہتر ہے ، تاہم فعلن باندھنے کی بھی گنجائش ہے اور اگر مکرر تو دونوں میں سے ہر ایک کو مفعول ، فعلن یا فاع تینوں طرح باندھنا درست ہے۔
مثالیں:
لفظ ”اللہ“ مفعول کے وزن پر:
گر کوئی پیر مغاں مجھ کو کرے تو دیکھے پھر
مے کدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کا
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
(میر تقی میر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ ناز و سرگرانی اللہ رے کہ ہر دم
نازک مزاجیاں ہیں یا کج کلاہیاں ہیں
(مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)
(میر تقی میر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ کو پامردیِ مومن پہ بھروسا
ابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
(مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن)
(اقبال)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لفظ اللہ فعلن کے وزن پر:
اللہ رے عندلیب کی آواز دل خراش
جی ہی نکل گیا جو کہا ان نے ہائے گل
(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)
(میر تقی میر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے اندر کفن کے پاؤں
(مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن)
(غالب)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بدلے نیکی کے یہ برائی ہے
میرے اللہ! تری دہائی ہے
(فاعلاتن مفاعلن فعلن)
(اقبال)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لفظ ”اللہ“ مکرر، دونوں مفعول کے وزن پر:
سراپا میں اس کے نظر کرکے تم
جہاں دیکھو اللہ اللہ ہے
(فعولن فعولن فعولن فعو)
(میر تقی میر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لفظ ”اللہ“ مکرر، دونوں فعلن کے وزن پر:
ہم گرچہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں درنگ کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے ، اللہ اللہ!
وہ آپ ہیں صبح و شام کرنے والے
(رباعی از غالب)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لفظ ”اللہ“ مکرر، دونوں فاع کے وزن پر:
نازِ بتانِ سادہ ہے اللہ اللہ اے میر!
ہم خط سے مٹ گئے پر ان کے نہیں ہے بھائیں
(مفعول فاعلاتن مفعول فاعلاتن)
(میر تقی میر)
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
لفظ ”اللہ“ مکرر، پہلا فاع اور دوسرا فعلن کے وزن پر:
اللہ اللہ بای بسم اللہ پدر
معنی ذبح عظیم آمد پسر
(فاعلاتن فاعلاتن فاعلن)
(اقبال)
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری