محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

’’جمیلہ…! وہ سامنے جو عورت کھڑی ہے نا… سانولی سی، وہی کلثوم ہے۔ جس کے بارے میں، میں نے تمھیں بتایا تھا کہ ہروقت اپنی بیٹی ہی کے گن گاتی رہتی ہے…آؤ…ذرا اس سے حال احوال لیتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ہم جمیلہ کو کلثوم کے پاس لے گئے۔ ہم لوگ ابھی ابھی اس تقریب میں پہنچے تھے۔
’’السلام علیکم…کیسی ہو کلثوم؟‘‘
’’وعلیکم السلام… بالکل ٹھیک ہوں اور تم سناؤ زرینہ…! تم کیسی ہو؟‘‘خیر خیریت کے بعد ہم نے ان دونوں کا ایک دوسرے سے تعارف کرایا پھر ہم نے مذاق کے طور پر کہا:
’’ارے کلثوم…!وہ بچی کتنی پیاری لگ رہی ہے، سچ پوچھو تو… بالکل تمھاری بیٹی لگ رہی ہے۔ ‘‘
میری بات سن کر کلثوم چونک گئی اور فورا اس بچی کو گھور کر دیکھنے لگی …تھوڑی دیر دیکھتے رہنے کے بعد بولی:
’’اونہہ…!اس کا ناک نقشہ اتنا خاص نہیں… میری بیٹی کو اس سے کیاتشبیہ دے رہی ہو… میر ی بیٹی تو میری بیٹی ہے… میری بیٹی کی تو ہرن جیسی آنکھیں ہیں… چیتے جیسی چال ہے…لومڑی جیسی چالاکی ہے…کوئل جیسی آواز ہے…شیرنی جیسی بہادری ہے… گھوڑی جیسی ہمت ہے… گائے جیسی معصومیت ہے اور… اور…‘‘
’’بس بس… رہنے دو…مجھے ایک بات پتا چل گئی۔‘‘ ہم نے اس کی بات کاٹ کر کہا:
’’کونسی بات پتا چل گئی…؟‘‘ کلثوم نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یہ کہ تمھاری بیٹی میں ساری صفات جانوروں والی ہیں۔‘‘
ہم نے آگے بھی کچھ کہنا چاہا، لیکن کلثوم پھٹ پڑی:
’’اے…اے…!میری بیٹی کے بارے میں اپنی زبان سنبھال کر بات کرنا… وہ توگلاب کا پھول ہے… چمن کی بہار ہے…صبح کی تروتازہ شبنم ہے… چودھویں رات کی ٹھنڈی ٹھنڈی چاندنی ہے… وہ تو…‘‘ کلثوم نہ جانے اور کیا کیا بولتی کہ جمیلہ نے ٹوک دیا۔
’’بس کرو… مجھے بھی ایک بات معلوم ہوگئی۔‘‘
’’اب تمھیں کیا بات معلوم ہوگئی…؟‘‘ کلثوم نے پھر حیران ہوکر پوچھا تو جمیلہ نے کہا:
’’یہی کہ تمھاری بیٹی میں ساری بے جان چیزوں کی صفات ہیں۔‘‘
اور پھر اس سے پہلے کہ کلثوم کاٹ کھانے کو دوڑتی، ہم دونوں وہاں سے کھسک گئیں۔
٭……٭
دودن بعد ایک اور تقریب میں ہمارا جانا ہوا…کافی دیر تک ملنا ملانا ہوتا رہا۔
پھر اچانک ہماری نظر کلثوم پر پڑی۔ بے اختیار ہمارے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ وہ عورت ہی ایسی تھی کہ اپنی سانولی بیٹی کے آگے کسی کو کچھ سمجھتی ہی نہ تھی… اس وقت وہ کسی سے لڑائی کے انداز میں باتیں کرنے میں مصروف تھی… ہم نے سوچا، ذرا ہم بھی تو سنیں، کیا باتیں کررہی ہے، ہم نے ان کے قریب آکر سننا شروع کیا۔
کلثوم کہہ رہی تھی:
’’تمھاری بیٹی کی تو مستقل ناک بہتی رہتی ہے…میری بیٹی کو دیکھو… ا س کی توصفائی ستھرائی دیکھ کر ہی اس پر پیار آجاتا ہے… میری بیٹی تو میری بیٹی ہے…!‘‘
’’ارے جاؤ…!تمھاری بیٹی کیا آسمان سے اتری ہے…؟دوسری عورت نے کہا، وہ شکل سے تیزلگ رہی تھی۔
’’ہاں…ہاں…!میری بیٹی آسمان سے اتری ہے…‘‘ کلثوم نے اکڑ کر کہا۔
اچھا!  تو اس کا مطلب ہے کہ وہ تمھاری سگی بیٹی نہیں… بلکہ منہ بولی بیٹی ہے۔‘‘ ہم نے بے اختیار لقمہ دے دیا۔
’’کیا مطلب…!کیا کہنا چاہ رہی ہو تم؟ ارے وہ میری سگی بیٹی ہے، جبھی تو اس پرجان چھڑکتی ہوں۔‘‘
’’تو پھر تم غلط بیانی کررہی ہو…کیوں کہ ابھی تم کہہ رہی تھیں کہ میری بیٹی آسمان سے اتری ہے… جب آسمان سے اتری ہے توتمھاری سگی بیٹی تو نہ ہوئی نا! ‘‘ ہم نے مسکراکر کہا۔
’’واہ…کیوں نہ ہوئی…ارے میں محاورۃًکہہ رہی تھی۔‘‘
اسی وقت ہمارے سامنے ایک بچہ آگیا…کپڑے پھٹے ہوئے… میلا کچیلا… چہرہ غبار آلود۔
وہ بڑی بھونڈی آواز میں رورہا تھا…شاید اپنی ماں کو تلاش کررہا تھا۔
اچانک ہم نے کلثوم کی جانب دیکھا… ہمیں گمان ، بلکہ یقین تھا کہ یہ اس بچے کی گندی حالت دیکھ کر ضرور تپ رہی ہوگی، لیکن اگلالمحہ ہمارے لیے انتہائی حیران کن اور چونکا دینے والا تھا۔
ہم نے دیکھا کہ کلثوم نے آگے بڑھ کر اس بچے کو گود میں لے لیا اور گلے سے لگاکر اسے چپ کرانے لگی۔
’’کیا کلثوم ہمارے ساتھ مذاق کرتی تھی کہ اسے صرف اپنی بیٹی ہی اچھی لگتی ہے…؟کیاہم اس سے نہیں، بلکہ وہ ہم سے تفریح لیتی تھی…؟‘‘ ہمارے ذہن میں عجیب عجیب خیالات کلبلانے لگے…دوسری عورت بھی ہماری طرح حیرانی کے سمندر میں غوطے لگا رہی تھی۔
ہم نے ہمت کر کے پوچھا:
’’ کلثوم…! خیریت تو ہے…؟ کیا یہ بچہ… تمہاری بیٹی سے اچھا ہے؟‘‘
اونہہ…!کہاں یہ بھنگی…اور کہاں میری چاند جیسی پری بیٹی… میری بیٹی تو میری بیٹی ہے…! میں تو صرف اس لیے اسے پیار کررہی ہوں کہ یہ میری بیٹی کی طرح رورہا ہے… اور یہ رونا مجھے بہت اچھا لگ رہا ہے۔‘‘
’’دھت تیرے کی…!‘‘ ہمارے منہ سے صرف اتنا ہی نکل سکا۔

تحریر: محمد اسامہ سَرسَری