سوال:
نثر ، موزوں کلام اور شعر میں کیا فرق ہے؟
جواب:
کلام اگر بغیر کسی خصوصی رعایت کے کہا یا لکھا جائے تو اسے نثر کلام کہتے ہیں ، پھر اگر اس میں کسی آہنگ اور وزن کو ملحوظ رکھا جائے تو اسے موزوں کلام کہا جاتا ہے یعنی یہ نثر کی پہلی ترقی ہوتی ہے، پھر جب کلام کو صفاتِ شعریہ سے مزین کردیا جائے تو اسے شعر کہہ سکتے ہیں۔
بالفاظِ دیگر نثر کی خوبی یہ ہے کہ بات سمجھ میں آجائے ، کلامِ موزوں کا جمال یہ ہے کہ کلام سنانے میں مزہ آئے جبکہ شعر کا کمال یہ ہے کہ کلام سننے والا بھی محظوظ ہو۔ 🙂
ہوتا یہ ہے کہ ایک طرف مبتدی دوست وزن سیکھ کر اپنے کلام کو شاعری سمجھنا شروع کردیتے ہیں تو دوسری طرف کہنہ مشق دوست محض وزن سے لاعلمیت کی بنا پر نثری نظم کو شاعری منوانے پر تلے ہوئے نظر آتے ہیں ، مبتدی دوستوں کو وزن کے ساتھ ساتھ شعر سمجھنے کی بھی ضرورت ہے جبکہ غیر موزوں کہنہ مشق حضرات کو تھوڑی سی ہمت کرکے وزن سیکھ لینا چاہیے کیونکہ کلام کے اندر آپ کتنی ہی شاعرانہ صفات پیدا کردیں جب تک اس میں آہنگ نہیں ہوگا اسے ادا کرنے کا لطف نہیں آئے گا، بالکل اسی طرف موزوں کلام کے اندر اگر شاعرانہ اوصاف نہ ہوں تو آہنگ کے باوجود وہ پذیرائی حاصل نہیں کرتا ایسا شاعر اگر اپنے غیرشاعرانہ موزوں کلام کو رٹ کر اوروں کو سناتا پھرے تو شاعروں کی پوری برادری بدنام ہوتی ہے ، بلکہ ہوچکی ہے کہ شاعر کو دیکھتے ہی لوگ ادھر ادھر ہونا شروع ہوجاتے ہیں کہ کہیں تازہ سو پچاس غزلیں سنانا نہ شروع کردے۔ 🙂
مزید آسان لفظوں میں یوں سمجھیں کہ نثر میں وزن ڈال دیں تو موزوں کلام بن جاتا ہے مگر شعر نہیں بنتا ، شعریت یہ ہے کہ یا تو خیال اچھوتا ہو یا پھر پیش کرنے کا انداز نرالا ، دل پذیر یا چونکا دینے والا ہو۔
اب ہم نثر ، کلامِ موزوں اور شعر کو مثالوں سے سمجھتے ہیں۔
نثر:
“سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اتباع کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنا محبوب بنالیتے ہیں اور چونکہ سب کچھ اللہ کا ہے تو جس کا اللہ ہوگیا اس کا سب کچھ ہوگیا۔”
(نثر میں کمال پیدا کرنے کے لیے مسلسل پڑھنا اور لکھنا ضروری ہے۔)
کلامِ موزوں:
نبی کی اطاعت ہے رب کی اطاعت
جو خالق کو پالے وہ پاتا ہے خلقت
(کلام موزوں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے وزن سیکھنا اور موزوں گوئی کی مشق کرنا از حد ضروری ہے۔)
شعر:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم تیرے ہیں
(شعر میں پختگی حاصل کرنے کے لیے اچھے اشعار کا مطالعہ ، طاقت ور مشاہدہ اور زرخیز تخلیقی دماغ ناگزیر ہیں۔)
صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری