کچے مکان ٹوٹ کے اب غار ہو گئے
کچے مکان ٹوٹ کے اب غار ہو گئے
اس پار کے جو زخم تھے اس پار ہو گئے
کھیلا تھا کمسنی میں بہت دوستوں کے ساتھ
اب کیا کریں کہ وہ بھی سمجھدار ہو گئے
گاوں میں جو سکون تھا وہ شہر میں کہاں
ڈھونڈا سکون شہر میں اور خوار ہو گئے
تنہا نہیں تھے ہم کبھی اس کے عتاب میں
جس نے بھی اُن کو دیکھا گنہگار ہو گئے
ڈھیروں کریں گے باتیں یہ دل کا گمان تھا
آئے وہ سامنے تو شرمسار ہو گئے
یہ عشق مسئلہ نہیں غالب فراز کا
ہم بھی تو اس عزاب سے دو چار ہو گئے
وہ لوگ مر مٹے تھے تو حیرت نہیں ہوی
مرنے کو اُن پہ ہم بھے تو تیار ہو گئے
شاہد جو اپنے تھے وہی اغیار ہو گئے
دکھ درد کو سمیٹا تو اشعار ہو گئے