کیا شاعری خداداد ہی ہوتی ہے؟
ایک سوال عموما یہ بھی کیا جاتا ہے کہ جب یہ عروض و قافیہ کے علوم نہیں تھے تب بھی تو لوگ موزوں اور مقفی شاعری کیا کرتے تھے تو انھوں نے کس سے سیکھا؟ پھر اسی سے یہ نتیجہ بھی نکال لیا جاتا ہے یہ کوئی سیکھنے کی چیز نہیں بلکہ خداداد ہے۔
خیر خداداد تو ہر ایک صلاحیت ہے ، حتی کہ ہمارے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ اور اس ایک ایک لفظ کو منہ سے ادا کرنے کی صلاحیت سب کچھ خداداد ہی ہے۔
بات کو اگر گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں تو واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں ہر زبان ، ہر فن اور ہر صلاحیت اپنی ابتدا میں غیر متعین شکل اختیار کرکے وجود میں آتی ہے، پھر انسانی استعمال دھیرے دھیرے اس میں نکھار پیدا کرتا ہے، یہی کچھ عروض و قافیہ وغیرہ کے ساتھ بھی یقینا ہوا ہوگا کہ پہلے لوگوں نے مؤثر جملے کہے ہوں گے، پھر کسی نے قافیہ بھی جوڑ دیا ہوگا اور کسی نے مزید دماغ سوزی کرکے ایسے جملے کہہ دیے ہوں گے کہ جن میں ایک سحر انگیز آہنگ محسوس ہوتا ہوگا، جس کی دیکھا دیکھی دیگر لوگوں نے بھی کوششیں کی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان میں یہ صلاحیت رکھی ہے کہ وہ کسی بھی فن اور ہنر میں ایک جگہ رکتا نہیں ہے بلکہ اس کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے، کچھ عرصے میں بہت سے لوگوں نے موزوں گوئی شروع کردی ہوگی، پھر بعد میں کسی نے اس وزن نامی ہنر کو فاعلن فعولن وغیرہ الفاظ کا نام دے دیا، یوں یہ سلسلہ ترقی کرتا ہوا عربی سے فارسی اور فارسی سے اردو میں منتقل ہوگیا۔
اردو والوں نے ان تمام عربی و فارسی اوزان میں سے صرف وہ اوزان قبول کیے جن کا آہنگ انھیں اپنی زبان میں مانوس محسوس ہوا، چنانچہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن کو اردو میں مقبولیت نہیں ملی، بلکہ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن کو ملی اور اس پر اردو اور فارسی میں کتابوں کی کتابیں منظوم کردی گئیں۔
یہی صورتِ حال قافیہ کی بھی سمجھی جاسکتی ہے۔ وعلیٰ ھٰذا۔ 🙂
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری