محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

یہ جو فع، فعو، فاع، فعلن، فعولن، مفاعیل و مستفعلن ہیں، یہ اوزانِ شعری تو لب کے نگیں ہیں، یہ ارکانِ فطری تو دل کے قریں ہیں، کہ جن سے بہت سوں کو گھبراتے، کتراتے دیکھا ہے، حالانکہ اوزانِ شعری ہی شعر و سخن کے جمالی تحفظ کی پہلی ضمانت ہے، آہنگ ہی تو وہ شے ہے جو الفاظِ مستعملہ کو نیا رنگ دیتا ہے، اک ڈھنگ دیتا ہے، جس سے ہر اک سننے والا سدا دنگ رہتا ہے، سنتے ہی کہتا ہے، کیا بات ہے اس سخن کی، تنوع کے تازہ چمن کی، اگرچہ وہ الفاظ اردو میں کثرت سے پہلے بھی سنتا رہا ہو، وہ لفظوں کے اس باغ سے پھول چنتا رہا ہو، مگر پھر وہی سادہ الفاظ شعروں کے آہنگ میں ڈھل کے کانوں میں رس گھولتے ہیں، انھی ذائقوں کی تمنا میں شاعر جو لب کھولتے ہیں، انھی مستیوں میں یہ بےچارے دن رات ہنس بولتے ہیں۔
کبھی کوئی کہتا ہے اوزانی چکر میں میرے خیالات پیارے، کمالات سارے، جمالات پارے نہ جانے کہاں کھو چکے ہیں، وہ شاید سبھی ہی خفا ہو چکے ہیں، میں ایسوں کو سمجھانے کے واسطے ایک عمدہ مثال آج لایا ہوں، یوں فرض کیجے کہ یہ شعرِ موزوں نہیں بلکہ نورِ نظر ہے، تمھارا پسر ہے، ابھی اس کے سارے ہی نخرے خوشی سے اٹھاتے ہو، اس کے لیے وقت لاتے ہو، اس کے سبب کام بھی سب ادھر سے ادھر ہوچکے ہیں، تعلق بھی کتنے ہی زیر و زبر ہوچکے ہیں، مگر محترم جو پدر ہوچکے ہیں وہ پھر بھی پسر سے جو شیر و شکر ہوچکے ہیں تو آخر سبب اس کا کیا ہے؟ یہی نا کہ یہ ساری کلفت، یہ زحمت، مشقت سبھی عارضی ہے، مگر کوئی پوچھے کہ کتنا ہے یہ عارضی کا زمانہ؟ یہ والد ہے آخر کو کتنا توانا تو کہتے ہیں ہنس کر کہ یہ بھی ہے کیا پوچھنے کی بھلا بات، بیٹا ہے، اک دن بڑا ہوکے سب کا سہارا بنے گا، بڑھاپے میں عہدِ جواں یہ ہمارا بنے گا تو بھائی! یہی بات ہے کل ملا کر کہ یہ وزنِ شعری پسر ہے تمھارا، یہ نورِ نظر ہے تمھارا، ابھی اس کی خاطر جو محنت ہے وہ عارضی ہے، مگر جب یہ اوزان اک بار عادت کا حصہ بنیں گے، فصاحت کا قصہ سنیں گے، بلاغت کا حصہ چنیں گے، بیاں کو احادیث میں سحر فرمایا یوں ہی نہیں ہے، یہ شعر و سخن وزن و حسن و ادا پائیں تو پھر کہیں سے کہیں ہے، اگر تم یہ پوچھو کہ یہ وزن آخر کہاں ہے؟ تو سن لیجیے وہ یہیں ہے، یہیں ہے۔
یہ جو فع، فعو، فاع، فعلن، فعولن، مفاعیل و مستفعلن ہیں، یہ اوزانِ شعری تو لب کے نگیں ہیں، یہ ارکانِ فطری تو دل کے قریں ہیں۔ 🙂
شاعر:
محمد اسامہ سَرسَری