انسان بسا اوقات کہنا کچھ چاہتا ہے اور روانی میں اس کی زبان سے کچھ اور ادا ہوجاتا ہے۔
ہم ایسے موقع پر اسی غلط لفظ پر زور دے کر دوبارہ کہتے ہیں ، جس سے مخاطب یہ تاثر لے لیتا ہے یا ظاہر کرتا ہے کہ ہم نے پہلی بار بھی ہنسانے کے لیے قصدا ایسا کہا تھا۔
“بٹوے میں سے الماری لادو”
“بوتل میں سے فریج لادو”
یہ دو جملے تو بکثرت کہہ دیے جاتے ہیں۔
ایک دن کسی نے ہم سے راہ چلتے جلدی جلدی پوچھا: “ٹائم کیا ہورہا ہے؟” وہ اتنی سرعت میں تھا کہ ہم نے بوکھلا کر کہا: “دونے پو”
اور ایک بار تو حد ہی ہوگئی ، موبائل کی نئی نئی سم ہمارے نام ہونے سے مکر گئی ، ان دنوں سم نام پر کروانے کے لیے 789 پر کال کرکے اپنے شناختی کارڈ کی تفصیل بتانی پڑتی تھی ، اب ہم نے جب اپنے شناختی کارڈ کا نمبر بتانا شروع کیا تو قسم لے لیجیے ، ہم اس وقت سنجیدگی و متانت کی ایک مثال بنے ہوئے تھے ، مگر ہماری زبانِ بے لگام سے اس وقت یہ الفاظ ادا ہورہے تھے: “فور ٹو تھرو زیری ون” ، نمائندے نے حیرت سے کہا “کیا؟” ، ہم نے پھر دہرایا ، اس نے کہا: “بھیا! مذاق مت کریں ، این آئی سی کا درست نمبر بتائیں” ، اس بار ہم نے گلا اچھی طرح کھنکھار کر تیز اور صاف آواز میں “فور ٹو تھرو زیری ون” (42301) کہا ، پھر ہم نے محسوس کیا کہ “تھرو زیری” کہنے کے دوران رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔
مزہ تب دو بالا ہوتا ہے جب دو الفاظ کے کچھ حروف کا تبادلہ ہوجاتا ہے اور بعد از مبادلہ ایسے دو الفاظ وجود میں آتے ہیں جو اپنی جگہ بامعنی ہی ہوتے ہیں ، مگر الگ معنی کے حامل ہوتے ہیں۔
جیسے ایک بار ہمارے ایک استاد ہمیں کنویں میں جانور کے گرنے کا مسئلہ سمجھا رہے تھے کہ فلاں جانور کنویں میں گر کر پھوٹا اور پھلا ہو تو یہ حکم ہے اور اگر پھوٹا اور پھلا نہ ہو تو اس کا یہ حکم ہے۔ استاد محترم بے چارے مسئلہ سمجھانے کے دوران پورا وقت یہی سوچ کر پریشان ہوتے رہے ہوں گے کہ اس مسئلے میں بھلا ایسی کونسی بات ہے کہ یہ طلبہ دبی دبی ہنسی کے ساتھ سر ہلا رہے ہیں۔
ایک صاحب تقریر کے دوران بڑے جوش و خروش کے ساتھ اقبال کا یہ شعر یوں سنا رہے تھے:
دشت تو دشت ہیں، چھریا بھی نہ دوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں گھوڑا دیے دوڑے ہم نے
اب کون ان سے کہتا کہ “دوڑنا” فعل لازم ہے جس کے ماضی کے صیغے میں “نے” نہیں آتا اور اگر دونوں مصرعوں میں “دوڑے ہم نے” ہے تو قافیہ کہاں گیا؟ اللہ ان کا اقبال بلند کرے۔
ایک دن ہم جنرل اسٹور میں داخل ہوئے اور سانسیں بحال کرنے سے پہلے ہی حکم صادر کردیا: “بھائی! وہ ذرا جلدی سے نیسلو کا مینگے والا جوس نکال دو” ، ہم نے سوچا تھا کہ جب تک ہماری سانسیں بحال ہوں گی تب تک مطلوبہ سامان ہمارے سامنے ہوگا ، مگر وہ ہمیں چبھتی ہوئی نظروں سے دیکھنے میں محو تھا ، “او بھائی!” ہم نے اس کی آنکھوں کے سامنے چٹکی بجائی ، پھر اس کے استفسار نے ہمیں سرکھجانے پر مجبور کردیا کہ مہنگے والا جوس تو ہے ، مگر یہ نیسلو کیا ہے؟ اب ہم اسے کیا بتاتے کہ “نیسلے کا مینگو والا جوس” کہنا تھا مگر حروف علت نے باہم نشست کا تبادلہ کرلیا ہے ، سانسیں بحال ہوچکی تھیں ، ہم نے ہنستے ہوئے کہا: “ارے بھائی! نیسلے کا مینگو والا جوس ، سمجھا کرو یار ، ہوجاتی ہے کبھی کبھی سبلتِ قسانی” ، وہ بہت متاثر ہوا ، پھر کچھ سوچ کر پوچھنے لگا: “ویسے یہ سبلتِ قسانی کا کیا مطلب ہے” ہم نے بمشکل اپنی گڑبڑاہت پر قابو پاتے ہوئے کہا: “عربی زبان کا لفظ ہے ، تم نہیں سمجھو گے۔” اگلے لمحے میں دونوں باہر آچکے تھے ، ہم اس کی دکان سے اور ہنسی ہمارے دہان سے۔ 🙂
محمد اسامہ سَرسَری