نظم یہ ہے کہ تمام اشعار مل کر ایک مکمل مضمون ادا کریں۔
غزل مسلسل یہ ہے کہ ایک ہی موضوع کے مختلف پہلوؤں کو تمام اشعار میں پیش کیا جائے۔
ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ غزل مسلسل کا ہر ہر شعر اپنے آپ میں بھی مکمل ہوتا ہے جبکہ نظم کے ہر شعر کا جامع المعنی ہونا ضروری نہیں بلکہ ناقص المعنی ہونا بہتر ہے۔
اس سے آگے باری آتی ہے “غزل” کی جسے ہم اصناف کی ملکہ کہہ سکتے ہیں، اس میں متعدد موضوعات کو پیش کیا جاتا ہے۔
تاہم غزل اپنی تمام تر تنوع مزاجی کے باوصف ایک خاص رنگ میں دکھائی دینی چاہیے، اس میں جہاں لفظی سطح پر لسانیاتی فضا کا یکساں ہونا ناگزیر ہے وہیں معنوی گہرائی میں خیالات کا ایک باریک ترین قدر مشترک کے ساتھ مربوط ہونا بھی اسے حسن و جمال کی معراج عطا کرسکتا ہے۔
اب یہ شاعر کی حسِّ جمالیات پر منحصر ہے کہ وہ اپنے بیش قیمت موتیوں جیسے اشعار کو غزل کی لڑی میں پروتے وقت کن موتیوں کو ترجیح دیتا ہے اور کونسے موتیوں کو ایک طرف کرکے یہ سوچتا ہے کہ انھیں اگلی لڑی میں پرونا بہتر رہے گا۔ 🙂
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری