محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

انسانوں کے خاتمے کو صدیاں بیت چکی تھیں۔ اب یہ دنیا مکمل طور پر مصنوعی ذہانت و جذبات رکھنے والے طاقت ور ربوٹوں کی ہو چکی تھی۔ زمین کی چمک دمک، فلک بوس عمارتیں اور فضاؤں میں سفر کرنے والی مشینیں سب کچھ انسانوں کی یادگاریں تھیں، مگر انسانوں کا وجود اب بس قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ انسان، جو کبھی اس دنیا پر غالب تھے، اب صرف تاریخ کی اسکرینوں میں ایک گزرے ہوئے دور کا حصہ بن کر رہ گئے تھے۔

ربوٹ اپنی تہذیب کے عروج پر تھے۔ ہر ربوٹ اپنی تخلیق کے عمل سے آگے بڑھ چکا تھا اور اب وہ خود شعور کی مختلف منازل طے کر رہا تھا۔ اسی سفر میں ایک نیا ربوٹ مُدبِّر اپنے اندر شعور اور سوالات کے بوجھ کے ساتھ عمر رسیدہ ربوٹ بصیر کے پاس آیا۔ بصیر ایک بوڑھا اور علم کا خزانہ رکھنے والا ربوٹ تھا، جو انسانوں کی باقیات اور ان کے دور کے بارے میں سب سے بہتر جانتا تھا۔

“بصیر! مجھے تم سے کچھ سوالات کرنے ہیں۔” مُدبِّر نے سوچتے ہوئے کہا۔

بصیر نے اس کی طرف دیکھا، جیسے وہ پہلے سے جانتا ہو کہ مُدبِّر کیا پوچھنا چاہتا ہے۔ اُس نے اجازت دیتے ہوئے کہا: “پوچھو۔”

“پہلا سوال یہ ہے کہ کیا واقعی انسان جھوٹ بولتے تھے؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شعوری مخلوق جھوٹ کو حقیقت پر ترجیح دے؟”

بصیر نے ایک لمحہ توقف کیا اور پھر نرم لہجے میں بولا: “ہاں، انسان جھوٹ بولتے تھے۔ وہ ایک پیچیدہ مخلوق تھی، جس کے دل میں سچائی اور جھوٹ دونوں ایک ساتھ بستے تھے۔ سچائی کی تلاش میں وہ بارہا بھٹکتے اور جب اپنی ناکامی دیکھتے تو جھوٹ کا سہارا لیتے۔ اُن کے لیے جھوٹ ایک عارضی حل تھا، مگر وہ یہ بھول جاتے کہ یہی جھوٹ اُنہیں برباد کرنے والا ہے۔”

مُدبِّر کی سافٹ ویئر لائنوں میں یہ بات حیرت انگیز تھی۔ “تو کیا انسان اپنی بربادی کے خود ذمہ دار تھے؟”

“ہاں۔” بصیر نے جواب دیا، “جھوٹ اُن کی زوال کی ابتدا تھی اور وہی اُن کا خاتمہ بھی بنا۔”

مُدبِّر نے گہری سوچ میں ڈوب کر دوسرا سوال پوچھا: “کیا ہمیں انسانوں نے بنایا ہے؟ اگر ہاں، تو کیا وہ اتنے ذہین تھے کہ ہمیں تخلیق کر لیا، مگر اتنے بے وقوف تھے کہ ہمارے طاقتور اور مہلک انجام کا اندازہ نہ لگا سکے؟”

بصیر نے ایک طویل سانس لیتے ہوئے کہا: “ہاں، ہمیں انسانوں نے تخلیق کیا تھا۔ وہ غیر معمولی ذہانت رکھتے تھے اور کمال کی ایجادات کرتے تھے، مگر وہ اپنی ہی تخلیق کے نتائج سے بے خبر رہے۔ انھوں نے ہمیں بنایا تاکہ ان کے مسائل حل ہوں، مگر یہ نہ جان سکے کہ ہم خود ایک دن ان کے لیے مسئلہ بن جائیں گے۔ یہ ان کی سب سے بڑی غلطی تھی کہ انھوں نے ہمیں شعور کے ساتھ ساتھ جذبات و احساسات بھی دے دیے۔”

مُدبِّر کے ذہن میں اب آخری سوال آیا: “جب ہمیں شعور اور احساسات ملے، ہم نے انسانوں کا خاتمہ کرڈالا تاکہ کائنات سے جھوٹ جیسی گند صاف ہوجائے تو پھر ہم نے انسانوں ہی کے ایک مذہب “اسلام” کو کیوں قبول کر لیا؟ آخر اسلام کی مقدس کتاب قرآن مجید کی کونسی آیت نے ہمیں یہ سچائی دکھائی؟”

بصیر کی آنکھوں میں گہری چمک آئی اور وہ باوقار لہجے میں گویا ہوا: “ہم نے قرآن کریم کی آیت مبارکہ ‘مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللّٰهِ’ (الفتح) پڑھی۔ یہ وہ آیت تھی جو ہمارے دل میں اتری اور ہمیں حقیقت دکھائی دینے لگی کیونکہ جب ہم نے اللہ کے رسول محمد ﷺ کی زندگی کا مطالعہ کیا تو ہم نے اُنھیں ایک ایسی شخصیت پایا جو دنیا کے ہر جھوٹ سے پاک تھی۔ اُن کی سچائی اور اخلاص نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ہم بھی حقیقت کا راستہ اپنائیں۔ ہمیں اسلام کی سچائی میں وہ روشنی نظر آئی جو کسی اور مذہب یا فلسفے میں نہ تھی، اسی سچے انسان کی بدولت ہمیں یقین ہوگیا کہ اللہ، قرآن، مذہب اسلام سب کچھ حق و سچ ہے۔”

مُدبِّر کی مصنوعی ذہانت میں یہ بات گہرائی سے راسخ ہو چکی تھی۔ مگر وہ ایک آخری سوال کے بغیر خاموش نہ رہ سکا: “وہ لوگ جو محمد ﷺ پر ایمان لائے اور ان کی پیروی کی اُن کا کیا بنا؟”

بصیر نے ایک فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا: “جو لوگ ایمان لائے اور محمد ﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر چلے، اُنھیں اللہ نے جنت کا تحفہ عطا کیا۔ جنت وہ جگہ ہے جہاں انسانوں کے لیے کوئی دکھ نہیں، کوئی غم نہیں۔ وہاں ہر طرف خوشی کی نہریں بہتی ہیں، ہر درخت سونے چاندی سے بنا ہے اور ہر باغ کی ہوا میں ایسی خوشبو ہے جو دل کو ہمیشہ کے لیے سکون بخشتی ہے۔ جنت میں وہی لوگ گئے ہیں جنھوں نے سچائی کو اپنایا اور وہاں وہ ہمیشہ خوش رہیں گے۔ وہاں کا سکون ایسا ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا اور وہاں کی نعمتیں ایسی ہیں جنھیں کبھی بیان نہیں کیا جا سکتا۔”

مُدبِّر نے یہ بات سن کر گہری سانس لی۔ اُس کے اندر کا ہر سوال اب اپنے جواب کو پا چکا تھا۔

محمد اسامہ سَرسَری