جواب:
آیتِ کریمہ:
كَلَّا لَئِنۡ لَّمۡ يَنۡتَهِ ۙ لَنَسۡفَعًۢا بِالنَّاصِيَةِۙ ۞
(سورۃ العلق: 15)
ترجمہ:
خبردار ! اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی کے بال پکڑ کر گھسیٹیں گے۔ (آسان ترجمہ قرآن از مفتی محمد تقی عثمانی صاحب)
سوال یہ کیا جارہا ہے کہ کیا لفظ لَنَسۡفَعًا میں کتابت کی غلطی ہے؟ یا یہ ظاہری طور پر عربی قواعد کے خلاف ہے؟
یہاں سب سے پہلے تو یہ سمجھیں کہ عربی قواعد تمام کے تمام اہل عرب فصحاء اور بلغاء کے تابع ہیں خواہ ان قواعد کا تعلق املا سے ہو یا تلفظ سے، پھر یہ بھی سمجھیں کہ یہ تمام فصحاء اور بلغاء جن کا کلام دیکھ دیکھ کر بعد والوں عربی گرامر اور بلاغت کے دیگر علوم مرتب کیے ہیں وہ سب بھی قرآنی بلاغت کے آگے عاجز تھے لہٰذا اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ قرآن کریم کا کوئی ایک ہلکا سا گوشہ بھی قواعد کے خلاف قرار دیا جاسکے، جیسے بچے کے بارے میں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ شکل و صورت میں اپنے باپ پر گیا ہے یا نہیں گیا، مگر کوئی یہ نہیں کہتا کہ فلاں بندہ شکل و صورت میں اپنے بیٹے یا پوتے پر گیا ہے یا نہیں گیا، اسی قرآنی رسم الخط ہو یا دیگر قرآنی امور ، قواعد و ضوابط ان کے تابع ہیں۔
اب لفظ لَنَسۡفَعًا کو سمجھتے ہیں۔
لَنَسۡفَعًا کی صرفی تحقیق:
صیغہ جمع متکلم ، گردان لام تاکید با نون تاکید خفیفہ ، باب فتح یفتح ، ہفت اقسام صحیح
قراءتِ جمہور کے مطابق نون خفیفہ ہے جبکہ دیگر دو قراءتوں کے مطابق نون ثقیلہ ہے:
وكُتِبَتِ النُّونُ الخَفِيفَةُ في قِراءَةِ الجُمْهُورِ ألِفًا اعْتِبارًا بِحالِ الوَقْفِ فَإنَّهُ يُوقَفُ عَلَيْها بِالألِفِ تَشْبِيهًا لَها بِالتَّنْوِينِ. (روح المعانی)
قُرِئَ ”لَنَسْفَعَنَّ“ بِالنُّونِ المُشَدَّدَةِ، أيِ الفاعِلُ لِهَذا الفِعْلِ هو اللَّهُ والمَلائِكَةُ، كَما قالَ: ﴿فَإنَّ اللَّهَ هو مَوْلاهُ وجِبْرِيلُ وصالِحُ المُؤْمِنِينَ﴾ [التَّحْرِيمِ: ٤] وقَرَأ ابْنُ مَسْعُودٍ ”لَأسْعَفَنَّ“ (تفسیر کبیر)
لَنَسۡفَعًا کے نون کو الف سے بدلنے کا قاعدہ یہ ہے کہ تنوین اور نون خفیفہ سے پہلے اگر زبر ہو تو انھیں حالتِ وقف میں الف سے بدل دیتے ہیں جیسے زیدًا سے زیدا اور لنسفعن سے لنسفعا۔
فالأَلف … تَكون بَدَلا من التَّنْوِين المفتوح مَا قبله فِي الْوَقْف نَحْو رأَيت زيدا وَمن النُّون الْخَفِيفَة لأَنَّها كالتنوين إِذا انْفَتح مَا قبلهَا تَقول اضرَبَنْ زيدا فإِذا وقفت قلت اضربا وَفِي قَوْله ﴿لَنَسْفَعَنْ بِالنَّاصِيَةِ﴾ وَالْوَقْف (لنسفعا) (المقتضب للمبرد)
اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ یہ تو وقف کا قاعدہ ہے جبکہ آیت میں لفظ لَنَسۡفَعًا آخر میں نہیں بلکہ بیچ میں تو اسے مستقل طور پر الف سے کیوں بدلا؟ اس کے دو جوابات ممکن ہیں:
پہلا جواب:
تاکہ کوئی اسے قراءتِ جمہور سے ہٹ کر نون ثقیلہ کے طور پر ادا نہ کرے۔
لَنَسۡفَعًا الوقف عليه بالألف فرقا بينه وبين النون الثقيلة (اعراب القرآن للنَّحاس
دوسرا جواب:
گزشتہ نو آیات کا اختتام الف پر ہے، ان کی رعایت میں اسے بھی الف سے بدلا تاکہ یہاں وقف کیا جائے تو دس الفاظ لکھنے میں بھی ایک سے محسوس ہوں، پھر پیچھے سے ادا کر بالناصیة پر وقف کیا جائے اور تلاوت کو جاری رکھا جائے تو آگے کی تین مزید آیات کا اختتام بالناصیة جیسا ہے۔ (یہ بندے کی ذاتی رائے ہے۔) قرآن کریم کے ایسے ہم آواز الفاظ کو فواصل کہا جاتا ہے۔