محمد اسامہ سَرسَری

لاگ اِن ہوکر 100 کوائنز مفت میں حاصل کریں۔

اکڑ شاہ

اکڑ شاہ اک شخص نادان تھا
وہ اس بات سے لیکن انجان تھا

تھی اس کی طبیعت میں آوارگی
حماقت وہ کرتا تھا یک بارگی

وہ قرضوں کے مارے پریشان تھا
اصولِ تجارت سے انجان تھا

خریدار آتے تھے بس خال خال
کہ موسم کا رکھتا نہ تھا وہ خیال

کہ سردی میں وہ گولے گنڈے رکھے
تو گرمی میں وہ ابلے انڈے رکھے

دسمبر میں قلفی کی کھولے دکان
مئی میں رکھے موٹے کپڑوں کے تھان

اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ کی چشمے کی دکان

پھر اک روز چشمے کی کھولی دکان
لکھا بورڈ پر ’’روٹی کپڑا مکان‘‘

کسی نے کہا اس سے ’’یہ کیا بھلا؟‘‘
دکاں میں ہے کچھ ، بورڈ پر کچھ لکھا!

اکڑ شاہ نے اس سے اکڑ کر کہا
جو اس کو پڑھے گا ادھر آئے گا

نہ آیا ، مگر کوئی اس کے قریب
اکڑ شاہ اکیلا تھا بیٹھا غریب

اچانک ہوا اس کا روشن دماغ
اندھیرے میں جیسے ہے جلتا چراغ

لگا زور سے کرنے اعلان وہ
جو سنتا تھا ہوتا تھا حیران وہ

مرے بھائیو! بہنو! آؤ یہاں
اگر چاہیے ’’روٹی کپڑا مکاں‘‘

فریم اپنی پوشاک ، شیشہ ہے نان
دکاں میری ہے آپ کا ہی مکان

وہاں خوب رش پھر تو ہونے لگا
اکڑ شاہ ان سب میں کھونے لگا

اکڑ شاہ پہ پہلے چڑھائی ہوئی
کہ جی بھر کے اس کی پٹائی ہوئی

بڑھے پھر دکاں توڑنے پھوڑنے
فریموں کو اس کی لگے موڑنے

اکڑ شاہ وہاں سے اڑن چھو ہُوا
اکڑفوں ہوئی اس کی ساری ہَوا

اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ کی آموں کی دکان

اکڑشاہ کی آم کی دکان

اکڑ شہ نے چشمے کی چھوڑی دکاں
وہ آموں کی لے آیا کچھ پیٹیاں

نہ آیا تھا آموں کا اب تک زماں
جبھی پیٹیوں میں تھیں بس کیریاں

دکان آم کی وہ سجانے لگا
یہ آواز پھر وہ لگانے لگا

یہ چم چم سے میٹھے مرے آم ہیں
بہت کم مرے آم کے دام ہیں

“دسہری” کی قیمت ہے دس دس روپے
ہیں “انوررٹول” آم سستے بڑے

ہے “لنگڑے” کی رفتار بے حد بھلی
بنا کر پیو جوس “چونسے” کا بھی

جو سنتے تھے اعلاں چلے آتے تھے
مگر پھر وہ واپس چلے جاتے تھے

کہ آتا خریدار کوئی قریب
تو کہتا اکڑ شہ کہ اے خوش نصیب!

یہ سب آم مل تو تمھیں جائیں گے
مگر کچھ دنوں میں پہنچ پائیں گے

ابھی آپ سے ہے یہی التماس
فقط ایک ’’الماس‘‘ ہے میرے پاس

یہ دیکھو ، یہ سونگھو ، نرا آم ہے
یہ کیری نہیں ہے ، ہرا آم ہے

خریدار کہنے لگے چل چکھا
اگر تو ہے سچا ، چکھا کر دکھا

چکھایا جو اس نے تو کچے تھے آم
چکھاتا رہا آم اپنے تمام

چکھے سب نے لیکن خریدے نہیں
گرا ہوکے بے ہوش اکڑ شہ وہیں

بڑی دیر بعد اس کو ہوش آیا تب
کہ سب کیریاں ہو گئیں ختم جب

اسامہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ اور ماہِ رمضان

اکڑ شاہ بے حد پریشان تھا
کہ اب جا رہا ماہِ شعبان تھا

بالآخر ہوا ختم شعبان بھی
اور آیا مہینوں کا سلطان بھی

لگا کرنے فوراً وہ تیاریاں
وہ لے آیا کھجلا بھی اور پھینیاں

اکڑ شاہ نے رج کے کیں سحریاں
تلافی کو پھر کر لیں افطاریاں

یہ روزے لگے اس کو بھاری بڑے
مشاغل سبھی ترک کرنے پڑے

کہا سب سے مجھ کو بڑے کام ہیں
عبادت ، ریاضت کے ایام ہیں

بالآخر رکھے اس نے روزے سبھی
دکھا چاند پھر آ گئی عید بھی

تو “آم” اور “چشموں ” سے واقف تھے جو
دیا فطرہ سب نے اکڑ شاہ کو

کھِلی اس کے دل میں خوشی کی کلی
وہ سمجھا اسے اس کی عیدی ملی

نماز اس نے پھر عید کی ، کی ادا
سنی بھانجوں کی پھر اس نے صدا

اکڑ ماموں ! عیدی ہماری کہاں ؟
اکڑ شاہ کو تھا نہ اس کا گماں

کسی کو نہیں دی تھی عیدی کبھی
مگر بچے چڑھ دوڑے اب کے سبھی

ملے اس کو فطرے میں جو چار سو
ہر اک کو دیے چار و ناچار سو

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ نے اسکوٹر سیکھی

اکڑ شاہ سے دوستوں نے کہا
تمھاری سواری کا پھر کیا رہا

اکڑ شاہ نے جھنجھلا کر کہا
جواب اس کا میں دے چکا بارہا

مجھے کار کا شوق تو ہے مگر
نہیں مال اتنا جو ہو کارگر

بنا کار کے میں ہوں بے کار سا
کسی میں نہیں ہے مزہ کار سار

ہیں سستی اگرچہ یہ اسکوٹریں
چلا جو نہیں سکتے وہ کیا کریں

یہ سن کر کہا اس سے اک دوست نے
اگر تو کہے تو سکھائیں تجھے

اکڑ شاہ یہ سن کے خوش ہو گیا
مسرت کی شہ راہ میں کھو گیا

اکڑتے ہوئے وہ یہ کہنے لگا
ہے یہ سیکھنا کام اک روز کا

اک اسکوٹر اچھی اکڑ شاہ نے
خریدی ، لگا پھر اسے سیکھنے

کلچ ، گیئر ، اسپیڈ اور پھر بریک
بیک وقت چاروں نہ کر پایا چیک

نہ رکھ پایا بیلنس اپنا ذرا
چلاتے ہی اسکوٹر اک دم گرا

اسے روڈ کرنا نہ آتا تھا پار
کجا یہ کہ کرتا وہ ہو کر سوار

اکڑ شاہ کو جب لگیں ٹھوکریں
کہا بھاڑ میں جائیں اسکوٹریں

پریشاں ہوا اور گھبرا گیا
وہ بوجھل سے قدموں سے گھر آ گیا

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ اور بقر عید

نظر آیا چاند اور ملی یہ نوید
کہ دس دن کے بعد آئے گی بقر عید

اکڑ شاہ دل میں لگا سوچنے
اسی سوچ میں کھا گیا سو چنے

کہ اس بار قربانی میں بھی کروں
خدا سے محبت کا دم میں بھروں

ارادہ یہ ظاہر کیا دوست پر
کہ منڈی سے لاتے ہیں اک جانور

چناں چہ اکڑ شاہ منڈی گیا
بہت موٹا تازہ سا بکرا لیا

گھمایا اسے خوب اکڑ شاہ نے
رکھا اس کو محبوب اکڑ شاہ نے

اکڑ شاہ لگواتا چکر اسے
تو بکرا لگاتا تھا ٹکر اسے

بالآخر پھر آ ہی گیا یومِ عید
وہ دن جو ہمارے لیے ہے سعید

کہا دوست نے اس سے بعد از نماز
قصائی کہاں ہے ، بتا دو یہ راز

اکڑ کر وہ بولا یہ مشکل نہیں
اسے ذبح میں خود کروں گا یہیں

یہ کہہ کر وہ مذبح کی جانب بڑھا
جہاں ہٹا کٹا تھا بکرا کھڑا

اکڑ شہ نے گردن سے جکڑا اسے
لگا کر بہت زور پکڑا اسے

گرانے کی کوشش وہ کرنے لگا
وہیں رک گیا جو گزرنے لگا

اکڑ شاہ اب تھا ’’پکڑ شاہ‘‘ ، پر
چڑھ آیا وہ بکرا اکڑ شاہ پر

کہا ایک نے پھر یہ بھائی ہے کون؟
یہ بکرے سے لاغر قصائی ہے کون؟

مجھے بات کہنی تھی یہ آپ سے
ہو جو کام جس کا وہ ساجھے اسے

قصائی کو پھر اس نے بلوالیا
جھکاکر نظر گھر کا رستہ لیا

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ نے شاعری کی

تھا موسم سہانا کسی رات میں
اکڑ شاہ نکلا تھا برسات میں

اکڑ شاہ بے حد نہانے لگا
مزہ خوب رم جھم کا پانے لگا

نہاتے ہوئے اک خیال آ گیا
اکڑ شاہ کو جیسے حال آ گیا

کہ موسم بھی اچھا ہے ، دل بھی جواں
چلا ہونے شاعر کا خود پر گماں

گھر آ کر قلم اور کاغذ لیا
بڑے غور سے سوچنے لگ گیا

اکڑ کر ہوا خود سے وہ ہم کلام
کہ یہ رات ہے شعر گوئی کے نام

چناں چہ غزل اک وہ کہنے لگا
خیالوں کی دنیا میں رہنے لگا

نہ آتا تھا کچھ وزن اور قافیہ
غزل سے مگر صفحہ پُر کر دیا

خوشی سے اکڑ شاہ اچھلنے لگا
اشاعت کو دل اب مچلنے لگا

کہا دل میں ، اب میں بھی کہلاؤں گا
جگر ، غالب ، اکبر اور اقبال سا

یوں پورا کروں دل کا ارمان اب
بناؤں گا نظموں سے دیوان اب

اکڑ شاہ بس مسکراتا رہا
خیالی پلاؤ پکاتا رہا

اک اچھے رسالے کو بھیجی غزل
رہا پھر نہ اس سے گیا ایک پل

مہینوں تک اس نے کیا انتظار
پڑھا ہر رسالہ کئی ایک بار

غزل اس کی بالکل نہ شائع ہوئی
جو محنت ہوئی گویا ضائع ہوئی

پھر اک دن لفافہ اسے اک ملا
جو نکلا خط اس سے ، وہ پڑھنے لگا

رسالے کی جانب سے پیغام تھا
اکڑ شاہ جیسوں کے وہ نام تھا

کہ اپنی پڑھائی میں محنت کرو
ابھی چھوٹے ہو ، خوب ہمت کرو

تمھیں شاعری سیکھنی ہے اگر
کسی اچھے شاعر سے لو یہ ہنر

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ کی ذہانت

اکڑ شاہ نے دوستوں سے کہا
مجھے تو ذہانت ہوئی ہے عطا

کہا دوستوں نے اکڑ شاہ سے
وہ پھنستا ہے اکثر ، اکڑ ہو جسے

اکڑ کر اکڑ شاہ کہنے لگا
اکڑ میرے اندر نہیں ہے ذرا

میں کیوں خود کو بے عقل و مجنوں کہوں ؟
تواضع کی خاطر غلط کیوں کہوں ؟

تبسم چھپا کر کہا دوست نے
اگر تو کہے آزمائیں تجھے

ذہیں ہے تو دے ہم کو تو بارہ سو
سمجھ دار گر ہے تو دے گیارہ سو

اکڑ شاہ بولا نہ مانوں گا ہار
مرے پاس کل آنا اے میرے یار!

میں تیئیس دینے کو تیار ہوں
کہ میں تو ذہین اور سمجھ دار ہوں

کہا دوست نے اے ذہیں ! چل بتا
بنی مرغی پہلے کہ انڈا بنا؟

اکڑ شاہ پہلے ہنسا پھر کہا
جواب اس کا بالکل ہے آسان سا

مجھے پہلے مرغا بنایا گیا
ورق پر پھر انڈا بنایا گیا

پھر اک دن اسی دوست سے جب ملا
تو وہ دوست اس سے یہ کہنے لگا

بہت ہی بڑے ہو گئے بال اب
حجامت کراؤ گے تم اپنی کب؟

بلایا تمھیں گویا حجام نے
دکان اس کی دیکھو وہ ہے سامنے

مگر ٹنڈ بالکل نہ کروانا تم
کہ ہو جاتی ہے ٹھنڈ میں سٹی گم

اکڑ شاہ حجامت کرانے چلا
کہ یہ مشورہ اس کو اچھا لگا

جب اگلے دن اس دوست سے وہ ملا
اسے پا کے گنجا وہ حیراں ہوا

کہا دوست نے بھائی! یہ کیا کیا
یہ کس نے تجھے پورا گنجا کیا

بتایا اکڑ شاہ نے ہنستے ہوئے
کہ حجام کے پاس کھلّے نہ تھے

دیے میں نے حجام کو سو روپے
کٹے تھے مرے بال بس تیس کے

کہا میں اس سے نہ گھبرا ذرا
تو ستر کا اب پھیر لے استرا

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ مال دار ہو گیا

اکڑ شاہ غم گین ہر آن تھا
وہ غربت کے مارے پریشان تھا

وہ بستر پہ اک رات رونے لگا
اسی رونے دھونے میں سونے لگا

اٹھا جب وہ سوکر تو بیمار تھا
بدستور غربت سے بے زار تھا

پرانی سی اک چارپائی تھی بس
بدن پر پھٹی اک رضائی تھی بس

دوا ڈاکٹر سے وہ لینے گیا
دوا ڈاکٹر دے کے کہنے لگا

کہ محسوس مجھ کو ہوئی شے عجیب
بدن میں تمھارے وہ ، دل کے قریب

ہوئی اس دوائی سے متلی اسے
اچانک ہوئی ایک الٹی اسے

چمکتا سا ہیرا برآمد ہوا
اکڑ شاہ حیران از حد ہوا

وہ ہیرا اکڑ شاہ نے بیچ کر
کیا حاصل اپنے لیے مال و زر

ہوا ملک بھر میں وہ اب مال دار
ہوا اہلِ ثروت میں اس کا شمار

وہ اپنی امیری میں یوں کھو گیا
فراموش سب دوستوں کو کیا

گو اسکوٹر اس نے نہ سیکھی کبھی
تجارت نہ کر پایا وہ آم کی

تھے اب اس کی گاڑی میں خدام بھی
وہ کھاتا تھا مہنگے سے اب آم بھی

وہ اب انکساری سے انجان تھا
اکڑ شاہ گویا ’’اکڑ شان‘‘ تھا

مسہری پہ اک رات سونے گیا
وہ کمبل کی بانہوں میں کھونے گیا

مزے سے وہ سو سو کے جوں ہی اٹھا
عجب سا اک احساس اس کو ہوا

مسہری نہیں ، چارپائی تھی وہ
وہ کمبل نہیں تھا ، رضائی تھی وہ

طویل اور اچھا سا یہ خواب تھا
کھلا اب بھی افلاس کا باب تھا

اساؔمہ سے قصے ’’اکڑ شاہ‘‘ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا ’’واہ!‘‘ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ اور روزنامہ اکڑ

اکڑ شاہ کا تھا ذہین اک مشیر
وہ لگتا تھا چہرے سے بالکل فقیر

اکڑ شاہ نے اس سے پوچھا جناب!
مری بات کا دو ذرا تم جواب

کروں کیا کہ ہو جاؤں میں بھی امیر
کریں میری عزت امیر و فقیر

مشیر اس کا فوراً ہی گویا ہوا
کہ دفتر اگر کھولو اخبار کا

وہ بِک کر کرے گا تمھیں مال دار
وہ پہنائے گا تم کو عزت کا ہار

اکڑ شاہ نے جب فضائل سنے
لگا نام اخبار کا سوچنے

خیال اس کو آتا تھا جس نام کا
تو وہ نام لگتا اسے عام سا

وہ لکھتا تھا پھر پھیرتا تھا ربڑ
رکھا نام پھر ’’روزنامہ اکڑ‘‘

پھر اک صفحہ اس نے بڑا سا لیا
جو کچھ ذہن میں آیا لکھتا گیا

مگر پاس اتنی رقم تھی نہیں
کہ چھپوائے اخبار جا کر کہیں

بطورِ نصیحت کسی نے کہا
کہ چھپوانا آساں نہیں آپ کا

اکڑ کر اکڑ شاہ کہنے لگا
کہ پیسے نہیں ہیں تو پھر کیا ہوا

جو پونجی ہے میری لگاؤں گا سب
طباعت میں اس کی کراؤں گا اب

بالآخر اکڑ شہ نے چھپوا لیا
ٹھیوں پر وہ جا جا کے رکھوا دیا

دھرا ہی رہا روزنامہ مگر
اکڑ شہ کا چھلنی ہوا یوں جگر

لکھی تھی غلط اس پہ تاریخ جو
لگی منہ چڑانے اکڑ شاہ کو

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ اور کرکٹ

نہ تھا آج کل کام اکڑ شاہ کو
میسر تھا آرام اکڑ شاہ کو

کبھی اِس گلی اور کبھی اُس گلی
وہ پھرتا تھا ، پَر کوئی منزل نہ تھی

یوں پھرتے ہوئے ایک دن ، اک جگہ
نظر آئے بچے تو وہ رک گیا

چمن کے یہ کھلتے ہوئے پھول تھے
سبھی بچے کرکٹ میں مشغول تھے

اکڑ شاہ نے ان سے جا کر کہا
کرو کھیل میں مجھ کو شامل ذرا

کہا ایک بچے نے ، انکل! نہیں
نہ لگ جائے چوٹ آپ کو بھی کہیں

اکڑ کر اکڑ شاہ کہنے لگا
ہے بچوں کا یہ کھیل آسان سا

کہ میں نے بھی بچپن میں کھیلا ہے خوب
ہر اک گیند پر ’’شاٹ مارا‘‘ ہے خوب

گلی میں تھے مشہور چوکے مرے
بلندی پہ جاتے تھے چھکے مرے

یہ کہہ کر چڑھانے لگا آستیں
کھڑا ہو گیا لے کے بَلا وہیں

تصور میں چھکے لگانے لگا
وہ بَلّا ہوا میں گھمانے لگا

معاً ایک بچے نے پھینکی جو گیند
یکایک اکڑ شہ نے دیکھی وہ گیند

اس افتاد پر وہ تو گھبرا گیا
جھکا بچنے ، لیکن وہ چکرا گیا

گرا وہ اِدھر اور بَلا اُدھر
اور آنے لگے دن میں تارے نظر

اسے زور کی چوٹ ایسی لگی
کہ نانی اسے پھر تو یاد آ گئی

پھر اک دن وہیں سے گزر جب ہوا
جھکا کر سر اپنا گزرنے لگا

تصور میں وہ گیند آئی نظر
ندامت سے اپنی جھکائی نظر

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ نے انگریزی سیکھی

اکڑ شاہ کے دُور کے رشتے دار
چچیرے کے ماموں کا بیٹا ’’نثار‘‘

دبئی سے وہ آیا تھا اس ملک میں
اکڑ شاہ کی دیکھنے حرکتیں

اکڑ شاہ سے اس نے اک دن کہا
کہ آپ انگریزی بھی سیکھیں ذرا

بڑی فائدے مند ہے یہ زباں
مگر آپ میں اتنی ہمت کہاں

اکڑ شاہ بے حد اکڑنے لگا
کہ مشکل کہاں انگریزی بھلا

یہ سن کر ہنسا خوب پہلے نثار
کہا پھر کہ کہنے کا کیا اعتبار

چلو کھیلیں انگلش کا آپس میں گیم
سو ٹَیل می ، کم اِن ، واٹ اِز یور نیم

اکڑ شاہ مبہوت و حیران سا
رہا دیکھتا بس پریشان سا

اسے یاد تھی ’’اے ، بی ، سی ، ڈی‘‘ فقط
سنا اس نے تھا ’’ممی ، ڈیڈی‘‘ فقط

پکڑ کر اکڑ شاہ نے دونوں کان
کہا زیرِ لب ’’الحفیظ ، الامان!‘‘

اکڑفوں مگر پھر بھی جاری رکھی
کہا اور آواز بھاری رکھی

مجھے تھوڑی محنت ہے درکار اب
سکھانے سے مت کرنا انکار اب

جو آتا ہے تم کو سکھاؤ مجھے
سب الفاظِ ’’انگلش‘‘ بتاؤ مجھے

کہا ہنس کے ، انگلش بس ایزی تو ہے
میں ’آئی‘، تو ’یو‘ اور وہ ’ہی ، شی‘ تو ہے

یہ انگلش تو فار اِیچ(۱) آسان ہے
کہ ’’پارٹ آف اسپیچ‘‘(۲) آسان ہے

ہوا اتنی انگلش سے جب بدحواس
اکڑ شہ لگا دیکھنے آس پاس

بہت خود کو دل میں لگا کوسنے
کہ کون اتنی بھاری اب ’’انگلش‘‘ سنے

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے

(۱) ہر اک کے لیے۔
(۲) کلام کا جز، انگلش گرائمر کی ایک اصطلاح ہے۔


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری



اکڑ شاہ کاہلوں کا سردار

کیا کام جو بھی تو کھائی شکست
بالآخر ہوئی اس کی ہمت ہی پست

اکڑ شاہ بنتا گیا پوستی
محلے کے سستوں سے کی دوستی

سبھی سست مل جل کے رہنے لگے
مشقت وہ آپس میں سہنے لگے

انھی کاہلوں میں تھا اک مال دار
جو سستی کا تھا نسبتاً کم شکار

کہا اس نے سب کاہلوں سے ، سنو
تم اپنے لیے ایک افسر چنو

ہے اس کے لیے کون تیار اب
جسے ہم کہیں اپنا سردار اب

اٹھایا ہر اک سست نے سن کے ہاتھ
اکڑ شاہ شامل تھا ان سب کے ساتھ

مگر ہاتھ اس نے اٹھایا نہیں
زباں سے بھی اس نے بتایا نہیں

اکڑ شاہ سے پوچھا پھر ایک نے
کہ ہاتھ آپ کے کیوں نہیں ہیں اٹھے

اکڑ شاہ بولا اے میرے عزیز!
امارت نہیں چھوڑ دینے کی چیز

مگر میرا سستی نے چھوڑا نہ ساتھ
فقط کاہلی سے اٹھایا نہ ہاتھ

سبھی اس کی سستی کے قائل ہوئے
اسی کی امارت پہ مائل ہوئے

اکڑ شاہ کو دی گئی ایک کار
اکڑ کر ہوا اس میں اک دن سوار

رکھی اس نے پہلے تو رفتار کم
مگر تیز کی اس نے پھر ایک دم

جو بیٹھے تھے ساتھی وہ حیراں ہوئے
کہ تیزی سے اس کی پریشاں ہوئے

پھر اک سست نے کر کے ہمت کہا
اچانک یہ تیزی ، ہے کیا ماجرا؟

اکڑ شاہ نے رہ کے چپ تھوڑی دیر
کہا اکسلیٹر پہ رکھا تھا پیر

مگر پھر جو سستی رکاوٹ بنی
تو رفتار گاڑی کی بڑھتی رہی

اسامہ سے قصے اکڑ شاہ کے
نہ جاؤ گے سن کر بنا واہ کے


وزن: فعولن فعولن فعولن فعو

شاعر: محمد اسامہ سَرسَری