غربت نے، در بدر کیا ہے
غربت نے، در بدر کیا ہے
بزدل کو بھی، نڈر کیا ہے
جتنا بھی دکھ ملا ہے تم سے
ہم نے وہ در گزر کیا ہے
تم جس کا سوچتے ہی ڈر جاو
ہم نے طے وہ سفر کیا ہے
نکلا ہوں میں اُسی کی خاطر
دل میں جس کے بھی گھر کیا ہے
میں تیرا تو مرا نہیں کچھ
قصہ یوں مختصر کیا ہے
جس کی بھی فکر کی ہے عالمؔ
اس نے ہم سے حذر کیا ہے