سوال:
ہمیں اس مسئلے کے حوالے سے معلومات چاہیے تھی کہ جو والدہ مرحومہ کی طرف سے وراثت ہوتی ہے جس میں کہ کیش اور کوئی جگہ ہو۔ تو کیا وہ تمام کیش سارے ورثہ میں برابر جائے گا؟ اور جو جگہ ہوگی اس کی تقسیم بھی سب میں برابر برابر کی جائے گی ؟ اُن کے تمام بچوں میں؟ والدہ کی وہ تمام چیزیں انکی اپنی ذاتی ہونگی (اُن کے والد صاحب کی طرف سے ملی ہو۔) بھائی 1 اور بہن 4 ہیں۔
جواب:
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔
والدہ مرحومہ اپنی وفات کے وقت جتنی چیزوں کی مالک تھیں (خواہ وہ جائداد ہو ، نقد رقم ہو ، بینک بیلنس ، ادا کردہ کمیٹیاں ہوں ، دیے ہوئے قرضہ جات ہوں) سب کو وراثت میں شمار کیا جائے گا ، وراثت میں سے سب پہلے مرحومہ کی تجہیز و تکفین کا خرچ کیا جائے گا، پھر جو بچے اس میں سے ان کے تمام قرضے اتارے جائیں گے، پھر باقی ماندہ کے ایک تہائی میں سے وصیت نافذ کی جائے گی اگر کی ہو ، بشرطیکہ وہ وصیت غیر شرعی نہ ہو ، پھر جو بچ جائے اس میں ان کے وارثوں میں شریعت کے مطابق تقسیم کیا جائے گا ، چنانچہ اگر وارثوں میں ان کے ماں باپ بھی نہیں ہیں، خاوند بھی نہیں ہے ، فقظ اولاد ہے تو کل مال کے چھ حصے کیے جائیں گے، ہر بیٹی کو اس میں سے ایک حصہ اور بیٹے کو دو حصے ملیں گے۔
اگر مزید کوئی پیچیدگی ہو تو مال تقسیم کرنے سے قبل ضروری ہے کہ کسی بڑے دار الافتاء سے تحریری فتوی لکھوا لیا جائے تاکہ شریعت میں بھی مکمل عمل ہوجائے اور کوئی انتشار بھی نہ ہو۔
واللہ اعلم