جواب:
قرآن کریم ، بلکہ پوری عربی زبان ، اسی طرح تمام زبانوں کا ہر ہر لفظ یا تو اسم ہے ، یا فعل یا حرف ، اس لیے کسی بھی زبان کی گرامر (نحو ، صرف) کو سمجھنے کے لیے اسم ، فعل اور حرف کو سمجھنا نہایت ضروری ہے۔
ہر چیز ، ہر صفت اور ہر حالت کا کوئی نہ کوئی نام ہوتا ہے ، اسے اسم کہتے ہیں ، جیسے زمین ، آسمان ، چاند ، سورج ، کتاب ، قلم ، زید ، عمر ، آنا ، جانا ، کھانا ، پینا ، بیماری ، صحت ، امیر ، غریب ، حتی کہ جن الفاظ سے اشارہ کیا جاتا ہے وہ بھی اسم ہی ہوتے ہیں جیسے یہ ، وہ ، ہم ، میں ، تم۔
اگر کسی صفت یا حالت میں تین زمانوں (ماضی ، حال ، مستقبل) میں سے کوئی زمانہ بھی شامل ہوجائے تو اسے فعل کہتے ہیں ، جیسے: آگیا ، آرہا ہے ، آئے گا ، کھالیا ، کھارہا ہے ، کھائے گا ، چلا گیا ، جارہا ہے ، چلا جائے گا۔
اسم اور فعل کے علاوہ جتنے بھی الفاظ ہوتے ہیں وہ صرف انھیں باہم ملاکر جملے کی شکل دینے کے لیے ہوتے ہیں ، جیسے مہمان اور گھر اسم ہیں ، چلا گیا فعل ہے ، ان تینوں کو ملا کر جملہ بنا: مہمان گھر سے چلا گیا ، اس جملے میں "سے" کی مدد سے یہ سب اسم اور فعل آپس میں مل سکے ، اسے حرف کہتے ہیں ، مزید حروف یہ ہیں: کا ، کی ، کے ، کو ، پر ، میں ، سے ، تک ، کے لیے۔
اسم ، فعل اور حرف کی علامات:
عربی زبان کے تمام الفاظ کو پہچاننے کے لیے ضروری ہے کہ اسم ، فعل اور حرف کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔
علاماتِ اسم:
یعنی اسم کی وہ خاصیتیں جو فعل اور حرف میں نہیں پائی جاتیں ، یہ بہت ساری ہیں ، ان میں سے نوآموز طلبہ کے مطلب کی صرف یہ سات ہیں ، کیونکہ ان کے شروع یا بیچ یا آخر میں مخصوص حروف کا اضافہ ان کے اسم ہونے کی علامت ہے:
(1) شروع میں الف لام کا ہونا ، جیسے: اَلحمدُ ، القرآن ، الصلاۃ تینوں اسم ہیں کیونکہ ان کے شروع میں الف لام ہیں۔
(2) شروع میں حرف جر کا ہونا ، جیسے "عن قریبٍ" اور "فی سبیل اللہ" میں قریب اور سبیل اسم ہیں کیونکہ قریب کے شروع میں حرف جر "عن" اور سبیل کے شروع میں حرف جر "فی" ہیں۔
(3) بیچ میں یائے تصغیر کا ہونا ، جیسے "جُنَیدٌ" اسم ہے ، کیونکہ "جُند" (بمعنی لشکر) کے بیچ میں یائے تصغیر لگاکر اسے جنید (چھوٹا لشکر) بنادیا گیا ہے۔
(4) آخر میں تنوین (دو زبر ، دو زیر ، دو پیش) کا ہونا ، جیسے: "تقریبًا" اسم ہے کیونکہ ان کے آخر میں دو زبر ہے۔
(5) آخر میں یائے نسبتی کا ہونا ، جیسے: "مکِّیٌّ" اسم ہے کیونکہ مکہ کے آخر میں یائے نسبتی بڑھانے سے مکی بنا ہے۔
(6) تثنیہ ہونا ، یعنی آخر میں الف یا ی اور نونِ مکسورہ کا ہونا ، جیسے: "حرمین" اسم ہے کیونکہ حرم کے بعد "ین" بڑھا کر اسے تثنیہ بنایا گیا ہے۔
(7) آخر میں گول ت (ۃ) کا ہونا ، جیسے: ناقۃ (اونٹنی) اسم ہے کیونکہ اس کے آخر میں ۃ ہے۔
۔ ۔ ۔
ان 7 علامات کے علاوہ اسم کی بہت سی وہ علامات بھی ہیں جن کو پہچاننا مبتدی اور نوآموز کے بس کی بات نہیں:
(8) مسند الیہ ہونا (9) مضاف ہونا (9) موصوف ہونا (10) جمع ہونا (11) مستثنی ہونا (12) مستثنی منہ ہونا (13) منصرف ہونا (14) غیر منصرف ہونا (15) علَم ہونا (16) نکرہ ہونا (17) فاعل ہونا (18) مفعول ہونا (19) منادٰی ہونا (20) ذوالحال ہونا (21) ضمیر ہونا (22) موصول ہونا (23) عدد ہونا
علاماتِ فعل:
یعنی فعل کی وہ خاصیتیں جو اسم اور حرف میں نہیں پائی جاتیں ، اسم کے مقابلے میں فعل کی علامات کم ہیں ، ان میں سے نوآموز طلبہ کے مطلب کی صرف یہ چھ ہیں ، کیونکہ ان کے شروع یا آخر میں مخصوص حروف کا اضافہ ان کے فعل ہونے کی علامت ہے:
(1) شروع میں قَدْ ہونا ، جیسے: "قد سمع الله" میں "سمع" فعل ہے ، کیونکہ اس کے شروع میں "قد" ہے۔
(2) شروع میں سَوْفَ کا ہونا ، جیسے: "سوف تعلمون" میں تعلمون فعل ہے کیونکہ اس سے پہلے سوف ہے۔
(3) شروع میں "لَم" ہونا ، جیسے: "لم یأتِ نظیرك" میں "یأتِ" فعل ہے ، کیونکہ اس سے پہلے "لم" ہے۔
(4) شروع میں "لَمّا" ہونا ، جیسے: "لمّا یأتِكم" میں "یأتِ" فعل ہے ، کیونکہ اس سے پہلے "لما" ہے۔
(5) شروع میں "لَنْ" ہونا ، جیسے: "لن تنالوا البر" میں "تنالوا" فعل ہے ، کیونکہ اس سے پہلے "لن" ہے۔
(6) آخر میں لمبی تاء (ت) کا ہونا ، جیسے: "اَنعَمتَ" فعل ہے ، کیونکہ اس کے آخر میں "ت" ہے۔
ان 6کے علاوہ بھی فعل کی علامات ہیں ، مگر مبتدی اور نوآموز کے لیے ان کو سمجھنا آسان نہیں ، وہ یہ ہیں:
(7) شروع میں سین زائدہ کا ہونا ، جیسے: "سیقول" (8) ضمیر مرفوع متصل کا ہونا (9) امر ہونا (10) نہی ہونا
علامات حرف:
جب کسی لکڑی کے تین برابر ٹکڑے کرنے ہوں تو پہلے دو ٹکڑے الگ کرنے کے لیے تو اسے دو بار کاٹنا ضروری ہوتا ہے ، مگر دوسری بار کاٹتے ہی تیسرا ٹکڑا خود بخود حاصل ہوجاتا ہے ، اسی طرح اسم اور فعل کی علامات کا معلوم ہونا حرف کو پہچاننے کے لیے کافی ہے ، جو لفظ اسم اور فعل نہ ہو وہ حرف ہی ہوگا۔