سوال:
شاعری میں شکست ناروا سے کیا مراد ہے؟
جواب:
اپنے کلام کو نثر کے بجائے منظوم کرنے کا مقصد آہنگ میں کلام کو پیش کرنا ہوتا ہے، اسی آہنگ کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ جس بحر میں ارکان چار ہوں اور الگ الگ ہونے کے باوجود کسی قدر مساوی ہوں، جیسے ”مفعول فاعلاتن ، مفعول فاعلاتن“، اس میں ارکان کے دو ایک جیسے حصے ”مفعول فاعلاتن“ ہیں، تو ایسی بحر میں کوشش کرنی چاہیے کہ کوئی لفظ پہلے حصے کے آخر میں ٹوٹ نہ رہا ہو، نہ ہی ایسی صورت ہو کہ مرکب اضافی یا توصیفی یا عطفی کا پہلا لفظ اس بحر کے پہلے حصے میں ہو اور دوسرا لفظ دوسرے حصے میں ہو،اسے ”شکستِ ناروا“ کہتے ہیں، جیسے:
جب تڑپ تڑپ کے جینا لکھا ہو قسمت میں
یہ بحر ہزج مثمن اشتر ہے، اس کا وزن ”فاعلن مفاعیلن فاعلن مفاعیلن“ ہے ، دیکھیے، یہ اس وزن کے ارکان اگرچہ الگ الگ ہیں ، مگر دو مساوی حصوں میں تقسیم ہورہے ہیں، اس لیے اس وزن پر لکھے گئے کلام میں کوئی مفرد یا مرکب ان دومساوی حصوں پر ٹوٹے تو اسے شکستِ ناروا کہا جائے گا۔
اس مصرع کی تقطیع یوں ہوگی:
جب تڑپ = فاعلن
تڑپ کے جی= مفاعیلن
نا لکھا= فاعلن
ہو قسمت میں= مفاعیلن
چونکہ لفظ ”جینا“ کو توڑ کر پڑھنا پڑ رہا ہے، جس سے آہنگ متاثر ہورہا ہے ، اس لیے اسے شعر کے اصول کے مطابق عیب شمار کیا جاتا ہے،یہ بالکل ناجائز تو نہیں ہے ، مگر شعری جمالیات اس سے متاثر ہوتی ہیں۔
دعاؤں کا طالب:
محمد اسامہ سَرسَری