صنعتِ تجنیس:
سوال:
تجنیس سے کیا مراد ہے؟ اس کی کتنی قسمیں ہیں؟ مثالوں سے واضح کریں۔
جواب:
”تجنیس“ عربی زبان کے باب تفعیل کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ہے ہم جنس و ہم شکل بنانا۔
علم بدیع کی اصطلاح میں تجنیس کا مطلب یہ ہے کہ دو الفاظ ایک جیسے ہوں۔
اس کی چار قسمیں ہیں:
(1) تجنیس تام:
دو لفظ معنی کے لحاظ سے الگ اور لفظی لحاظ سے بالکل ایک جیسے ہوں۔
اگر دونوں اسم ، فعل یا حرف ہونے کے لحاظ سے ایک ہوں تو اسے ”تجنیس تام مماثل“ کہتے ہیں۔
دو اسموں کی مثال: بھاگ (دوڑ) اور بھاگ (قسمت)
اشعار:
قرنوں بدلی رسولوں کی ہوتی رہی
چاند بدلی کا نکلا ہمارا نبی
(مولانا احمد رضا خان)
مر گئے ہیں کسی کی چاہ میں ہم
گر پڑے ہیں کسی کے چاه میں ہم
(خواجہ محمد یار فریدی)
دو فعلوں کی مثال: جیتے(جیتنا سے ماضی) اور جیتے (جینا سے، جیسے جیتے رہو)
اس کی مثال کے لیے کوئی شعر فی الحال یاد نہیں۔
اور اگر ایک اسم اور ایک فعل ہو تو اسے ”تجنیس تام مستوفی“ کہا جاتا ہے، جیسے مانگ (بالوں کے بیچ کی سیدھی لکیر) اور مانگ (طلب کر)
شعر:
تمہارے دست نازک کے لئے بھیجی تھی اک پہنچی
خبر پہنچی تو یہ پہنچی کہ وہ پہنچی نہیں پہنچی
(2) تجنیس مرکب:
دو ہم شکل لفظوں میں سے ایک مرکب ہو دوسرا مفرد ہو ۔
پھر جو لفظ مرکب ہے اگر اس کے حروف مفرد کے حروف سے زیادہ ہوں تو اسے ”تجنیسِ مرفو“ کہتے ہیں۔ جیسے: غیر اور بغیر۔
اور اگر دونوں کے حروف کی تعداد برابر ہو تو اگر لکھنے میں بھی ایک سے ہوں تو انھیں ”تجنیسِ متشابہ“ کہتے ہیں ، جیسے درزن(درزی کی تانیث) اور درزن (بمعنی عورت میں)
اور اگر حروف کی ہیئت میں اختلاف ہو تو اسے ”تجنیس محرف“ کہتے ہیں، جیسے تل ملانا اور تلملانا ، سَروَر اور سُرُور
شعر:
ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مس زلف دکھاتی ہیں کہ اس لام کو دیکھو
(اکبر الہ آبادی)
اسلام اور اس لام
(3) تجنیس خطی:
جب دو لفظ دیکھنے میں ایک جیسے ہوں ، مگر ان میں حرکات یا نقطوں کا فرق ہو، جیسے ریش(ڈاڑھی) اور ریش(زخم) ،شیر(اسد) اور شیر(دودھ) ، اسی طرح دعا اور دغا ، محرم اور مجرم ، عرق اور غرق
شعر:
گٙلے سے لگتے ہی جتنے گِلے تھے بُھول گئے
وگرنہ یاد تھیں ہم کو شکایتیں کیا کیا
(شاعر کا نام یاد نہیں)
(4) تجنیسِ ناقص:
دو یا زیادہ الفاظ کے اکثر حروف کا ایک جیسا ہونا۔ جیسے عزم اور عدم ، قیامت اور قیادت
شعر:
نذر نے نذر کو نظر بھر کے دیکھا
نذر کو نذر کی نظر لگ گئی
(شاعر کا نام یاد نہیں)
طالبِ دعا:
محمد اسامہ سَرسَری